Abdul Hanan Raja.Column

خبردار، پاکستان نازک صورتحال سے….! عبدلاحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

یہ اتنے ذہین اور فطین کہ ان کے اپنے کاروبار، ملیں اور انڈسٹریاں کبھی دیوالیہ نہیں ہوتیں، دیوالیہ کرنے اور ہونے کیلئے سرکار جو موجودہے، ان کا اختیار و اقتدار قومی معیشت اور عوامی فلاح کی بجائے اپنی کاروباری ایمپائر کو فروغ دینے کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی مثال ہی لے لیجیے، ملک سے مفرور کی حیثیت سے گئے مگر واپس آئے تو پورے طمطراق سے، اپنے اربوں کے اثاثہ جات، نیب کی جانب سے قرق کی گئی پراپرٹی اور منجمد 50 کروڑ روپے آئینی طریقے سے واپس لیے، کہ قانون انہی کی تو لونڈی ہے، شریف خاندان کے سارے غبن، بددیانتی اور لوٹ مار ایک ایک کرکے صاف اور اب جب وہ میدان میں اتریں گے تو نئی شان سے، لانڈری سے دھلے اُجلے کپڑوں کی طرح، ایک بار پھر سے عوام کی’’ خدمت‘‘ کیلئے کمر کسنے کو تیار، عوام کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ نواز شریف ہوں یا زرداری، اس قبیل کے دیگر معزز ممبران اسمبلی ہوں یا طاقتور افراد، کہ کیا انہوں نے اپنی انڈسٹریاں چلانے کیلئےکبھی کند دماغ یا نااہل افسران کی تعیناتی کی؟ یہ
بڈھ تو قومی اداروں کیلئے رکھ چھوڑے ہیں، پی آئی اے ہو تو اربوں کا خسارہ، نجی ائیر لائن اربوں کا منافع، پاکستان سٹیل ملز ہو تو بوجھ سرکار کے کندھوں پر، نجی شعبہ جات کی ملوں کا بوجھ عوام اٹھاتے پھرتے ہیں، ایک مل کے منافع کے ثمرات ہر ذی شعور کو دنیا کے کئی ممالک تک نظر آتے ہیں مگر نظر نہیں آتے تو ہمارے لاچار قانون اور نظام انصاف کو ، ہائی ٹیک انڈسٹری سمیت دفاعی سازوسامان تیار کرنے والے اداروں سے متعلق کبھی خوش کن خبریں سننے کو نہیں ملیں، حتی کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والی ٹرانسپورٹ، پاکستان ریلوے کو ہی دیکھ لیں، اس نے کبھی بھی سرکار کو سالانہ اربوں سے کم کا ٹیکہ لگایا ہی نہیں، سیمنٹ، چینی، آٹو، ادویات سمیت بجلی پیدا کرنے والے مافیاز، حکومتیں ان کے آگے بے بس کہ سیاست انہی کے اخراجات پر ہوتی ہے، کوآپریٹو سوسائٹیز ہوں یا براہ راست کسی ادارے کے ملازمین کیلئے ہائوسنگ پراجیکٹ، گزشتہ 30 سال سے کم از کم ہم نے کوئی منصوبہ مکمل ہوتے نہیں دیکھا ان اداروں کی 90 کی دہائی میں شروع ہونے والی سوسائٹیز کے ممبران پلاٹ الاٹ ہونے کی خواہش لیے قبروں میں جا پہنچے حتی کہ ان کی اولادوں کا بھی اپنا گھر اپنی جنت کے خواب ٹوٹتا نظر آتا ہے مگر پھر بھی یہ بے بس ہیں کہ ان بیچاروں کو قانون کے گورکھ دھندوں کا علم ہے اور نہ ان سے نمٹنے کا فن انہیں آتا ہے۔
عوام کے ارمانوں کا خون کئی بار ہو چکا مگر شاید انہیں سمجھ آنی تھی اور نہ آئی کہ ہر آنے والا حکمران جب اقتدار سے باہر ہو تو خوش کن نعرے، معیشت کو پٹری پہ لانے کی باتیں، آئی ایم ایف پروگرام بند، اور عوامی خوشحالی کے بلند و بانگ دعوے، مگر اقتدار میں آتے ہی ان کا انقلاب الٹا عوام پر ہی برس پڑتا ہے، ماضی بعید کو چھوڑیں، گزشتہ دس برسوں کے بیانات اور انٹرویوز ہی دیکھ سن لیں، کیا پی پی حکومت کے دوران نواز شریف، نون لیگ کے اقتدار کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور پی ٹی آئی کے پونے چار سالہ دور حکومت میں پی ڈی ایم یہ سب کرتی نظر نہیں آئی؟ کیا ہر آنے والے نے عوام کے سامنے پچھلی حکومت کی تباہ کاریوں کا رونا نہیں رویا، کیا ہر آنے والے مسیحا نے’’ملک نازک ترین صورتحال سے گذر رہا ہے‘‘ کا راگ نہیں الاپا ؟ کیا یہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے عوام سے اگلی مدت کیلئے دوبارہ اقتدار کی بھیک نہیں مانگتے۔؟ کیا دوران اقتدار، اپنے ہی دعوئوں کے برعکس سب کچھ نہیں کرتے، پی ٹی آئی قارئین اور احباب سے معذرت کے ساتھ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو اس معاملہ میں یک جان ہی نظر آئیں، اقتدار ملنے سے قبل تک انکے پاس تمام مسائل کے حل کا ٹانک موجود ہوتا ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد انکے نام نہاد افلاطون و ارسطو سر کھجاتے نظر آتے ہیں،اور’’ انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات‘‘ کے مصداق یہ سلسلہ وار فلم گزشتہ کئی دہائیوں سے عوامی باکس آفس میں کامیابی سے چل رہی ہے، ہماری بدقسمتی کہ آنے والی حکومت آتی تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ۔۔۔! مگر جاتی ہے تو دیوالیہ کر کے۔۔!
پی ٹی آئی حکومت کا پہلا تجربہ کوئی خوش گوار ثابت نہ ہوا مگر اب جو حالات ہیں اس کے متعلق درد سے بلبلاتے عوام کہتے نظر آتے ہیں کہ جانے والوں نے تو صرف کپڑے اتارے تھے یہ تو چمڑی ادھیڑنے میں لگے ہیں، جس زرعی ملک کی حالت یہ ہو کہ گزشتہ چار سالوں سے سرکار کے مقرر کردہ نرخوں پر آٹا دستیاب نہیں، جہاں سفید پوش طبقہ کیلئے آٹے کا حصول بھی اب درد سر بن جائے ایسے کوڑھ زدہ نظام سے بغاوت تو بنتی ہے، میڈیا سمیت ہر فورم پر موجودہ حکمرانوں کو تجربہ کار گردانا جاتا تھا اور یہ واقعی تجربہ کار ہی نکلے ! کہ ان کی نظر میں انکے اقدامات درست، کیونکہ پاکستان نازک صورتحال سے گذر رہا ہے۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button