ColumnImtiaz Ahmad Shad

کہیں ہمارا شمار ،نا شکروں میں تو نہیں؟ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

انسان پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں جنہیں وہ گننا چاہے تو نہیں گن سکتا۔ ارشادِ خداوندی ہے ’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں شمار نہیں کرسکتے، بلکہ انسان تو اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں میں ڈُوبا ہوا ہے۔‘‘ (ابراہیم34) ’’اور اس اللہ نے اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر رکھی ہیں۔‘‘ (لقمان20)۔ہر بات پر ناشکری کرنے والے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآنِ کریم نے بہ طورِ خاص اپنی نعمتوں کا ذکرکس قدر واضح فرمایا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ سب سے بڑی نعمت اسلام کی نعمت ہے۔ جسے نبی آخر الزمان حضرت محمدؐ لے کر آئے اور جس کی تکمیل کا اعلان میدانِ عرفات میں حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا۔ ارشادِ باری ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘ (المائدۃ3)اور پھر اس نعمت اسلام کو لانے والے نبی کریمؐ کی بعثت کی نعمت کو ایمان والوں پر بہ طورِ احسان ذکر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جب کہ انہی میں سے ان کے پاس ایک ایسا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور ان کی زندگی کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے اور بلاشبہ اس رسول کی تشریف آوری سے قبل یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘ (آلِ عمران 164) ارشادِ خداوندی ہے ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو اہل ایمان ہیں۔ اُن کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیاطین ہیں جو ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ سب لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (البقرۃ 275)اور ایمان ہی وہ نعمت ہے جو ایک مومن کو بلند مقام پر پہنچا کر اسے دوسری مخلوق پر اِمتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔ایک مومن ہی کو اپنے رب کی صحیح معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہی اپنے رب کی عبادت اور اطاعت بجا لاتا ہے اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور دوسرے انسانوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک نعمت اخوت اور اتحادِ اِسلامی کی نعمت ہے۔ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دلوں کو جوڑ کر بغض و عداوت کو محبت و اخوت میں بدل دیا۔ اسلام سے پہلے قبائل عرب ایک دوسرے کے دشمن، خون کے پیاسے اور ہر وقت باہم دست و گریباں رہتے تھے لیکن جب اسلام آیا تو ان کے دلوں کو ایسا بدلا کہ جو دشمن تھے وہ آپس میں بھائی بن گئے۔ اسی نعمت، اخوت اور وحدت کو قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا’’اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے، جب کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو اس گڑھے سے بچالیا۔‘‘ (آلِ عمران103)
اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت آزادی اور حریت کی ہے کہ انسان اپنے ملک میں آزاد ہو اور کسی کافر مستعمر کا غلام نہ ہو۔ قرآنِ کریم نے بنی اسرائیل کی غلامی کا ذکر فرماکر انہیں آزادی کی نعمت یاد دلائی ہے اور آزادی سے پہلے فرعونوں کے مظالم کا ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح اس نے ان کو غلام اور محکوم بنارکھا تھا اور کس طرح ان سے بڑے بڑے مشقت کے کام لیتا تھا۔ ان کے بچوں کو ذبح کردیتا تھا اور بچیوں کو زندہ چھوڑ کر ان سے خدمت لیتا تھا۔
ارشادِ باری ہے ’’اور یاد کرو اس زمانے کو جب ہم نے تم کو فرعون اور اس کے لوگوں سے نجات دی۔ جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے وہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔‘‘ (البقرۃ49)اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے امن و سلامتی اور اشیائے خور و نوش کی فراوانی بھی نعمت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو یہ نعمتیں یاد دلاکر انہیں اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیاکیوں کہ قریش کی تجارت کے قافلے گرمیوں میں شام تک جاتے اور سردیوں میں یمن جاتے اور راستے میں کوئی شخص بھی ان سے تعارض نہ کرتا اور یہ امن و امان سے اپنا سفر طے کرکے سامانِ تجارت اِدھر اُدھر لے جاتے تھے۔ نیز اللہ تعالیٰ اُن کو مکہ مکرمہ کی زمین کے بے آب و گیا ہونے کے باوجود ہر قسم کے پھل اور غذائی اشیا کھلاتا تھا۔
پھر جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص خاص نعمتوں کا ذکر فرمایا وہاں ان انعامات پر شکر بجا لانے کا بھی حکم فرمایا ہے اور کسی نعمت پر شکر بجا لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دل سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرے اور زبان سے کہے، الحمدللہ۔ دوسرا طریقہ شکر بجا لانے کا یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کی حفاظت کی جائے اور اسے وہیں استعمال کرے جہاں اسے استعمال کرنے کا حکم یا اجازت دی گئی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی معصیت میں استعمال نہ کرے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر بجا لانے سے اس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور نعمت باقی رہتی ہے۔ بلکہ اس میں اِضافہ ہوتا ہے اور ناشکری اور کفرانِ نعمت سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کا مستحق بنتا ہے اور بسا اوقات اس نعمت سے بھی محروم ہوتا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ناشکرے ہو چکے؟اللہ تعالی کی تمام نعمتوں کے باوجود ہم محرومیوں اور پستیوں میں دھکیل دیئے گئے؟ایسا کیا ہوا کہ زرعی ملک اناج سے محروم، چشموں اور دریائوں کی سرزمین کے باشندے پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں؟غور کریں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر اس کام کو فخر سے کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے اللہ تعالی نے سختی سے منع فرمایا ہے۔جھوٹ،سود خوری، نا انصافی اور دوسروں کے حقوق صلب کرنا اللہ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ عوامل ہیں۔ یہ چیز انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جو بھی اس کے ساتھ احسان کرے دل اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی احسان کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ کی مخلوق ہر وقت اس کی نعمتوں سے مستفید ہوتی ہے اورجس شخص نے نافرمانی پر تعاون بھی کیا گویا اس نے نا شکری کی اور نعمتوں کی کثرت کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہیں۔‘‘(سبا13.)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button