ColumnImtiaz Aasi

افغان جہاد اور دہشت گردی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

تینتالیس سال پہلے امریکہ کا اتحادی بننے والے پاکستان کے عوام افغان جہاد کے ثمرات دہشت گری کی صورت میں سمیٹ رہے ہیں۔ ہم اسی افغانستان کی بات کر رہے ہیں جس نے قیام پاکستان کے وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ڈیورنڈلائن انگریز سرکار نے قائم کی تھی نہ کہ پاکستان نے جسے افغانستان کی کوئی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔یہ ٹھیک ہے امریکہ کا اتحادی بننے سے ہمارے ہاں ڈالروں کی کچھ ریل پہل ہوئی تاہم ہماری معاشی حالت خراب ہے اور ہم دیولیہ ہونے کو ہیں۔پھر اسی جہاد افغان کے حوالے سے افغان پناہ گزینوں کی ہمارے ہاں ایسی یلغار ہوئی وہ وطن واپسی کا نام نہیں لیتے۔افغان پناہ گزینوں کے ساتھ اسلامی بھائی چارے کا سلوک کرنے والے ہمارے بعض بدعنوان سرکاری ملازمین نے انہیں قومی شناختی کارڈ بنا دیئے جس کے بعد وہ مملکت خداداد میں بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن گئے۔پاک فوج نے بارڈر پر باڑ لگائی تو انہیں گوارا نہ ہوئی ،لہٰذاموقع ملتا ہے تو باڑ کو اکھاڑ پھینک دیتے ہیں۔آخر ایران میں بھی افغان پناہ گزین رہ رہے ہیں کیا مجال کوئی کیمپوں سے باہر نکل سکے۔یہاں کیمپ بنائے گئے اور افغانی کیمپوں سے نکل کر شہروں میں آباد ہو چکے ہیں،کوئی ہے جو انہیں پوچھ سکے۔تعجب ہے افغان پناہ گزین بغیر کسی سرکاری دستیاویز کے یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا ہم افغان مہاجرین کی وطن واپسی بارے پہلے کئی کالم لکھ چکے ہیں۔موجودہ حکومت کو یاد آیاہے اخبارات میں اشتہارات شائع ہورہے ہیں کوئی غیر ملکی ویزا کے بغیر رہ رہا ہے تو وہ غیر قانونی تصور ہو گا ابھی تک کتنے غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑا گیا ہے بس معاملہ اشتہاروں تک محدود ہے۔ نوجوان تھے تو حقانی نیٹ ورک کا سنتے تھے۔ ہمارے ایک مرحوم دوست سنیئر صحافی ایم طفیل افغانستان میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کیلئے گئے ۔اسامہ سے ملاقات تو نہ ہوسکی گورنر قندھار سے مل لیا ۔ایک ٹانگ سے معذور گورنر نے انہیں ناشتے پر مدعو کیا تو مٹی کے پیالے میں لسی اور سوکھی روٹی سے انہیں ناشتہ کرایا گورنر نے خود بھی وہی ناشتہ کیا جو مہمان کو پیش کیا معذورگورنر کا تعلق مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے تھاپھر چشم فلک نے دیکھا سوکھی روٹی اور لسی سے گذارہ کرنے والوں نے امریکی فوجوں کو وطن واپسی پر مجبور کر دیا۔روسی جارحیت کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر جہادیوں نے روس کو افغانستان سے نکال باہر تو کیا ان جہادیوں کی
اولادیں جوان ہو گئی ہیں، افغانستان میں وقت گذرنے کے ساتھ جہادیوں کے کئی گروپس بن گئے کوئی حقانی گروپ، ملاعمر گروپ،گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود،اوررشید دوستم نہ جانے کون کون سے گروپ بن گئے پیسہ تو امریکہ کا تھا سب گروپس نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔اسی کے عشرے میں سابق سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ افغانستان کے مسئلے کو کوئی مستقل حل نکالے بغیر جہادیوں کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ امریکی ڈالروں کی آمد بندہو ئی تو افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات ہمارے ملک پربھی پڑنا شروع ہوگئے۔جن گروپس کو امریکہ نے مالی امداد دے کر روس کے خلاف تیار کیا تھاجن میں عرب ملکوں کے جہادی بھی شامل تھے، امریکہ سے مالی معاونت بند ہونے سے وہی گروپس امریکہ کے خلاف ہوگئے اور انہی گروپس نے امریکہ اور مغربی ملکوں کے مفادات پر حملے شروع کر دیئے۔چنانچہ اس کے ردعمل میں امریکہ نے ان حملوں کو دہشت گردی سے منسوب کر دیاجس کا نقطہ آغاز امریکہ میںنائن الیون کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کی صورت میں سامنے آیا۔نائن الیون کے واقعے کے بعد ساتھ پاکستان کی مشکلات کا آغاز ہوگیا امریکہ نے ہمیں دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمارا ملک جہادیوں کے ساتھ ہے یا امریکہ کے ساتھ ہے۔جب ہم نے جہادیوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا شروع کیا تو جہادیوں نے ہمارے ملک میں حملوں کا آغاز کر دیا۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے نتیجہ میں طالبان حکومت نے اقتدارسنبھالا تو ہم نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ طالبان کے آنے سے ہمارے ہاں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔بدقسمتی سے دہشت گردی کے خاتمے کا ہمارا خواب پورا نہ ہو سکا اور ہمارا ملک آج کل پھر دہشت گردی لپیٹ میں ہے۔
اہم بات یہ ہے امریکہ کے خلاف افغان طالبان اور ٹی ٹی پی دونوںنے مل کر لڑائی کی جس کے نتیجہ میں امریکہ کو افغانستان سے جانا پڑا۔ ٹی ٹی پی والوں کا تعلق ہمارے ان قبائلی علاقوں سے ہے
جنہیں پاکستان کی حکومت نے ان کی آزادحیثیت ختم کرکے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کردیا ہے ۔ٹی ٹی پی کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کی حیثیت کی بحالی کے ساتھ بارڈر سے افواج کی واپسی کا بھی ہے جو ہمارے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں، پاکستان سے کئی وفودتحریک طالبان سے مذاکرات کیلئے جا چکے جس کا نتیجہ صفر ہے۔ طالبان حکومت کے قیام سے ہمیں یہ امید تھی کہ پاکستانی بارڈر کے قریب بھارتی قونصلر خانوں کی آڑ میں دہشت گردی کے جو مراکز قائم ہیں ان کا خاتمہ ہو جائے گا، پاکستان میں روز بروز دہشت گردی کے واقعات میں تیزی اس امرکا ثبوت ہے بھارت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف نہ صرف استعمال کر رہا ہے بلکہ اسلحہ کے ساتھ ان کی مالی معاونت بھی کر رہا ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے بلوچستان سے افغانستان جانے والے باغیوں کی معاونت سے ٹی ٹی پی اور بھارت باہم مل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کر رہے ہیں جنہیں ہماری بہادر افواج ناکام بنا رہی ہے ۔بنوں کے تازہ ترین واقعے میں 25 دہشت گردی مارے گئے اور کچھ ہمارے جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔پاک فوج کے ترجمان کے مطابق دہشت گرد افغانستان واپسی کیلئے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے جو امر کا غماز ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی میں بھارت کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت اور تحریک طالبان سب ملوث ہیں۔ آخر ہمیں افغان جہاد سے کیا حاصل ہوا الٹا لاکھوں افغان پناہ گزین ہماری کمزور معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔افغان جہاد میں ہمارے لاکھوں لوگ شہید ہوئے اربوں ڈالر کا معاشی نقصان علیحدہ ہوا۔ ہم پر دہشت گردی مسلط کرکے امریکہ واپس چلا گیااور ہمارا ملک جہاد افغان کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button