ColumnM Anwar Griwal

ہم کیا کر رہے ہیں؟ .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

میں گزشتہ دنوں صبح سویرے اپنی نیند قربان کرکے حجام کی دکان پر گیا، خیال تھا کہ سردیاں بھی شروع ہو رہی ہیں اور چھٹی کا دن بھی ہے، رش نہیں ہوگا، تجربہ بھی یہی تھا۔ واضح رہے کہ چھٹی والے دن اپنی صبح کا آغاز کم از کم دس بجے ہوتا ہے، تجربہ اُس روز ناکام ٹھہرا، سیٹ پر کوئی صاحب ابھی براجمان ہوئے ہی تھے، پہلے انہوںنے بال ترشوائے، پھر چہرے پر کوئی پالش یا مالش وغیرہ کروائی (بعد میں معلوم ہوا کہ اس عمل کو فِشل کہتے ہیں) پھر انہوں نے بذریعہ خضاب اپنی جوانی کی بحالی کا اہتمام کروایا۔ اس پورے عمل کو ظاہر ہے وقت تو ضرورت سے کافی زیادہ لگنا ہی تھا۔ میں انتظار کرنے پر مجبور تھا۔ حجام نے انہی دنوں میں اپنی دکان پر ایک عدد ٹی وی بھی لگوا لیا تھا۔ اب ٹی وی چل رہا ہے، کوئی نیوز چینل ہی تھا، مذکورہ بالا صاحب نے اپنا موبائل اپنے سامنے آئینہ کے قریب رکھا ہوا ہے، اُس پر کسی یو ٹیوب چینل پر کوئی اینکر بغیر وقفے کے گفتگو فرما رہے ہیں، جب سے یہ یوٹیوب چینلز وجود میں آئے ہیں، اینکر کو بِلا تکان اکیلے ہی ناظرین کے دل و دماغ کی تشفی کا سامان کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ ٹی وی چینلز پر یہ لوگ صرف مہمانوں کو بھڑکانے کا کام کرتے ہیں اور تماشا دیکھتے ہیں، اور ناظرین اپنی گردشِ خون میں اضافہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چھوٹی سی دکان میں ایک طرف ٹی وی ہے اور دوسری طرف ایک صاحب ایک اینکر کے ذریعے اپنے دل کی خوشی کا سامان کر رہے ہیں۔ انتظار میں بیٹھے افراد کے لیے یہ ماحول ناقابلِ برداشت تھا۔ میں نے خودپر جبر کرتے ہوئے سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا، کیونکہ سمجھ میں آنے والی کوئی بات نہ تھی، بس ایک شور سا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ موبائل سے اپنے پسندیدہ اینکر کو سننے والے صاحب یقیناً لطف اندوز ہو رہے ہوں گے،اپنے اینکر کے ذریعے اپنے لیڈر کے لیے دلائل جمع کر رہے ہوں گے، رات گئے تک مختلف مقامات پر ہونے والی سیاسی بحثوں میں حصہ لینے اور اپنی علمیت کا سِکّہ جمانے کے لیے مواد اکٹھا کر رہے ہوں گے۔ گویا چابی ہے جو کھلونے میں بھری جا رہی ہے، گویا غبارہ ہے، جس میں ہوا بھری جارہی ہے۔ صرف یہ حجام کی کرسی پر بیٹھے صاحب ہی نہیں، سوشل میڈیا پر یہی کچھ ہو رہا ہے کہ اُن ایشوز پر اپنی پوری توانائیاں صرف کی جارہی ہیں جو نہ عوام کے ہاتھ میں ہیں اور نہ اینکر کچھ کر سکتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں ایک ایشو کو بلا جواز اور خواہ مخواہ پوری قوم نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ ہاں البتہ یو ٹیوب وغیرہ کی پوری کارروائی میں اینکر کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے، کیونکہ اس کی بے مقصد اور بغیر ضرورت کے طویل گفتگو سے اُس کی آمدن میں معقول اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سننے والوں کو دورانِ خون کی گردش کو تیز تر کرنے کا بندوبست ہو جاتا ہے، جس پر وہ خوش ہورہے ہوتے ہیں، دراصل وہ بیماری کا طوق اپنے گلے خود ڈال رہے ہوتے ہیں۔
میں پانچ کلو میٹر سفر کر کے اپنے دفتر پہنچتا ہوں۔ دو کلومیٹر سفر چھوٹی نہر کے کنارے پر ہے، چار سال بعد خدا خدا کرکے مرمت کا کام ہوا تھا وہ بھی ادھورا ہے۔ نہر کے کنارے بہت سے گھروں نے اپنی غلاظتیں نہر کے سپرد کرکے ثوابِ دارین میں اپنا مستقل حصہ ملا لیا ہے۔ ایک جگہ پر دو تین سو فٹ کچی آبادی بھی نہر پر ہے، جہاں بچے نہر کے کنارے بیٹھ کر فطرت کی گود میں اپنا وزن ہلکا کررہے ہوتے ہیں۔ اس نہر میں گٹر کے پانی کی آمیزش بھی کر دی گئی ہے۔ کنارے پر رہنے والے بہت سے رہائشی گھر کی غلاظتوں کو پائپ لائن کے ذریعے اور کچرے کو شاپر وغیرہ کے ذریعے نہر کی زینت بنانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ یوں خوبصورت نہر گندے پانی، کچرے اور غلاظتوں کا جوہر بنتی جارہی ہے۔ اِسی نہر میں آجکل آبی پودوں کی بہتات ہے، جب نہر کچرے اور آبی پودوں سے اَٹ جاتی ہے، تو محکمہ انہار کا عملہ کچھ نامعقول قسم کی صفائی کرکے راستہ پکڑتا ہے۔ پھر یار لوگ کناروں پر پڑے کچرے کو خشک ہونے کے بعد آگ لگا کر سموگ میں اضافہ کرکے اپنا حصہ ملاتے ہیں۔
دوسری طرف بہاولپور شہر صفائی اور سبزے وغیرہ میں ملک بھر میں پوزیشن لے رہا ہے۔ یہاں صفائی کے مثالی انتظامات اور بہترین ریکارڈ کے علاوہ پی ایچ اے (پارکس اینڈ ہارٹیکلچرل اتھارٹی) بھی ہے، شہر بھر میں پارکوں اور دو رویہ سڑکوں کے درمیانہ حصہ کو سر سبز رکھنے کا ذمہ اِسی اتھارٹی کے کندھوں پر ہے۔ فراغت کو مصروفیت میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت نے شہر میں ہونے والی اشتہار بازی ، جس سے کروڑوں روپے ماہانہ وصول ہوتے ہیں، کارپوریشن سے لے کر اِس اتھارٹی کو عنایت کی ہوئی ہے۔ یہاں تجویز یہ ہے کہ اگر مذکورہ نہر پر تین کلومیٹر تک دونوں طرف سڑک بنا دی جائے، وہاں خوبصورت پودے اور خالی جگہوں پر گھاس اور پھول پھلواڑیاں لگ جائیں تو یہ شہر بھر کے لیے ایک بہترین سیر گاہ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ کیا ہم عوام اور ہمارے مقامی اداروں کے افسران و اہلکاران کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ فلاں عہدے پر کون آرہا ہے، اور فلاں سے کون جار ہا ہے؟ یا ہمیں یہ خیال کرنا چاہیے کہ ہم اپنے راستوں کو صاف رکھیں، نہروں اور سڑکوں پر گندگی نہ ڈالیں، اپنے قرب و جوار میں پودے لگائیں۔ جو کام ہمارے کرنے کے ہیں، وہ ہم نے نظر انداز کر رکھے ہیں اور جو کام ہمارے اختیار میں ہی نہیں، ہماری ضرورت ہی نہیں ، اُنہیں ہم نے زندگی موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے، نادیدہ طاقتوں، خیالوں اور تصورات کی بنا پر گھروں میں نفرت کی خلیجیں بڑھتی جارہی ہیں، خاندان اور دوست احباب میں بھی نفرت دشمنی میں بدل رہی ہے۔ ہمارے کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ جب ہمیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا سنہری موقع ملتا ہے تو ہم مخلص،دیانتدار لوگوں کی بجائے کامیاب ہونے والے مخصوص لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں، پھر آنے والے الیکشن تک اپنے ہی مقدر کو روتے ہیں اور اگلے الیکشن میں اُسی کو یا اُس جیسے کسی کو منتخب کرکے مستقل رونے کا بندوبست کر لیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button