ColumnJabaar Ch

ہنوزدلی دوراست۔۔ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

چھبیس نومبربھی گزر گیا اورلانگ مارچ بھی تمام ہوالیکن ان تمام لوگوں کوبہرحال مایوسی ہوئی جو عمران خان سے انقلاب لانے کی امید باندھ بیٹھے تھے۔ ویسے ان کی مایوسی کوئی اتنی نئی بات بھی نہیں کہ عمران خان پہلے ہی کئی بار اس نظام کو چیرپھاڑکر ایک سپر مین کی طرح اقتدارسے سب کو باہر نکال کرخودکرسی پر بیٹھ جانے کے بار بار دعوے کرکے ناکام ہوتے رہے ہیں ۔مایوس تو وہ بھی ہوئے ہیں جو عمران خان کے لانگ مارچ کو موزے تُنگ کالانگ مارچ سمجھ کرچل پڑے تھے لیکن خان صاحب نے اس لانگ مارچ کو چھوٹے چھوٹے جلسوں میں بدل کرلانگ مارچ سے انقلاب تک کا سارا سفر ہی کھیل تماشے کی نذرکردیا۔پنڈی میں جلسے کااعلان انہوںنے اسلام آباد پرچڑھائی کرکے وہاں سے حکومت کو نکال باہر کرنے کے لیے کیا تھا لیکن اپنی ہی حکومت کے تمام تروسائل کے ساتھ پنڈی میں جلسہ کرکے ۔ریاست مدینہ اور حضرت عمرؓ کے انصاف کی مثالیں دیتے وقت عمران خان صاحب جس کرسی پر براجمان تھے وہ کرسی بھی ان کی پارٹی یا ان کے ذاتی پیسوں سے وہاں نہیں لائی گئی تھی بلکہ وہ کرسی بھی پنڈی کی ضلعی حکومت کی ملکیت تھی جو کوئی بھی عہدہ نہ رکھتے ہوئے عمران خان کی طرف سے سرکاری وسائل استعال کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔
مجھے پہلے ہی علم تھا کہ عمران خان اسلام آباد کی سرحد کے بھی قریب نہیں جائیں گے نہ ہی دھرنا دینے کی ہمت اب ان کی پارٹی میں باقی بچی ہے۔ ان کی امید ایک بڑے جلسے کی ضرور تھی لیکن پنڈی کا جلسہ بھی اتنا بڑا نہیں ہوسکا۔لاکھوں لوگوں کا دعویٰ کرکے ہزاروں بھی جمع نہیں کیے جاسکے۔پی ٹی آئی نے اپنے تمام اراکین اسمبلی کو کم ازکم تین تین ہزارلوگ ساتھ لانے کے لیے کہا تھا لیکن ہررکن یہ مطلوبہ تعداد جمع کرکے ساتھ لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوا۔پنڈی کے جلسے کو ختم کرنے کے لیے عمران خان کو ایک اعلان کرنا تھا جو انہوں نے اسمبلیوں سے نکلنے کا کردیا اور گھر چلے گئے ۔
عمران خان نے جو اعلان پنڈی میں کیا ہے اس کا تجزیہ کرلیتے ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ اسمبلیاں توڑنا اور اسمبلیوں سے باہر آنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔اگر عمران خان صرف اپنے اراکین کو صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا حکم دیتے ہیں تو اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔اس اقدام سے اتنا ہی فرق پڑے گا جو پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے نکلنے سے پڑاتھااگر وہ استعفے دیتے ہیں اور سارے کے سارے استعفے قبول بھی ہوجاتے ہیں تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں دوبارہ الیکشن ہوجائیں گے اور مزے کی بات یہ ہوگی کہ پی ٹی آئی دوبارہ ضمنی الیکشن بھی لڑے گی اور صورتحال وہی ہوگی جو قومی اسمبلی میں ہے یعنی کسی کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔
دوسری صورت دوصوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کا فیصلہ ہے۔یہ فیصلہ انتہائی اہم ہے کیونکہ وفاقی حکومت انہیں ایسا کرنے کا چیلنج کرتی رہی ہےلیکن عمران خان کے اعلان سے صاف لگتا ہے کہ اس اقدام کے لیے انہوں نے کسی سے ابھی مشورہ نہیں کیا ۔یعنی اس فیصلے کے لیے ان کی پارٹی ابھی آن بورڈ نہیں ہے۔عمران خان نے مشاورت کے لیے مہلت حاصل کرلی ہے۔اب اگلے ایک دو ماہ میں مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ملک میں اب بحث کا موضوع بھی یہی رہے گا کہ کیا اسمبلیاں توڑی جائیں گی یا استعفے دیے جائیں گے ۔
اگر یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اسمبلیاں توڑدی جائیں اور اس قدم سے وفاقی حکومت کو مجبورکیا جائے کہ وہ قبل از وقت الیکشن کروانے پرراضی ہوجائے تو پھر ممکن ہے خیبر پختونخوا میں اسمبلی توڑنا آسان کام ہولیکن پنجاب میں شاید اتنا آسان نہ ہو۔گوکہ اس اعلان کے بعد چودھری مونس الٰہی نے اسپین میں بیٹھ کر ٹویٹ کیا کہ اگر خان صاحب نے اسمبلی توڑنے کا کہا تو پرویز الٰہی فوری عمل کریں گے لیکن انگریزی کا محاورہ ہے کہ کپ اورہونٹوں کے درمیان کافی کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔اس لیے جب پنجاب کی اسمبلی توڑنے کی باری آئے گی تو دونوں طرف سے اصل سیاسی جنگ کا آغاز ہوگا۔
ابھی تک جو خبریں سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق اسمبلیو ں کی تحلیل کو روکنے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک بھی جمع کروائی جاسکتی ہے ۔بہت ممکن ہے کہ اس دھندے میں خود چودھری پرویز الٰہی بھی ملوث پائے جائیں کیونکہ ایک بات تو بہت ہی واضح ہے کہ چودھری پرویز الٰہی صرف اسی اسمبلی میں وزیراعلیٰ ہیں اس کے بعد الیکشن کے نتیجے میں بھلے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت آبھی جائے چودھری پرویز الٰہی کا وزیراعلیٰ بن پاناناممکن ہوگا اس لیے چودھری پرویز الٰہی چاہیں گے کہ وہ اپنی مدت پوری کریں چاہے اس کے لیے پی ڈی ایم کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑے۔
چلیں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی عمران خان کے ایک اشارے پر حکومت قربان کرنے کے وعدے پر قائم رہتے ہیں اورمحمود خان بھی ایک منٹ نہیں لگاتے اور دونوں اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں ۔ایسی صورت میں کیا ملک میں فوری انتخابات فرض ہوجائیں گے؟ اس کا آئینی اور قانونی جواب ہے نہیں ۔بالکل بھی الیکشن فرض نہیں ہوں گے کیونکہ اس ملک میں صرف دو صوبے ہی نہیں ہیں بلکہ دو صوبے اور ہیں اور ایک وفاقی حکومت بھی ہے، صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ ان دوصوبوں میں انتخابات کروادیے جائیں ۔آئین اور قانون کا تقاضا تو یہی ہے۔ہمارے ملک میں کبھی بھی اس طرح صوبوں اور وفاق کے انتخابات الگ الگ تاریخوں میں نہیں ہوئے ہیں ممکن ہے یہ روایت ٹوٹ جائے اور دوصوبوں کے الیکشن قبل از وقت ہوجائیں اور باقی انتخابات اپنے وقت پر کروادیے جائیں۔کیا یہ صورتحال عمران خان کے لیے قابل قبول ہوگی؟یہ اہم سوال ہے اور اس کاجواب بھی کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کا مقصد وزیراعظم کی گدی پر بیٹھنا ہے اسی کام کے لیے وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیے بیٹھے ہیں تو اگر حافظ صاحب کو کھانے کو حلوہ بھی میسر نہ آئے تواس کے اندھے ہونے کا کیا فائدہ؟
اس وقت انتخابات کو نو ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے ۔ابھی عمران خان نے صرف اعلان کیا ہے انہیں مشاورت میں دوماہ لگ جائیں گے یا وہ جان بوجھ کرلگادیں گے ۔اس کے بعد اگر فیصلہ اسمبلی توڑنے کا ہوتا ہے تو چودھری پرویز الٰہی ن لیگ کا منت ترلہ کرکے عدم اعتماد کی تحریک جمع کروادیں گے ۔اس کامطلب ہے کہ ایک مہینہ مزید اسمبلی نہ توڑنے کا قانونی جواز مل جائے گا ۔اس دوران دوبارہ جوڑ توڑ ہوگا۔قاف لیگ کا کیا پتا خود ہی ساری کی ساری ن لیگ کی جھولی میں آگرے ۔چلیں اگر عدم اعتماد کامیاب نہیں بھی ہوتی تو تین چار ماہ اس سارے عمل کو لگ جائیں گے اورچار ماہ بعد اگر اسمبلیاں تحلیل بھی ہوجاتی ہیں تو پھر کیا الیکشن کمیشن صرف باقی کے چار ماہ کے لیے دواسمبلیوں میں الیکشن کرواسکے گا؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں اور پھر ممکن ہے وفاق دونوں صوبوں میں گورنرراج لگاکر مزید کام چلانے کی کوشش کرے ۔گوکہ عدلیہ ایسے گورنر راج کو زیادہ دیر چلنے نہیں دے گی ۔اس ساری مشق میں ویسے ہی انتخابات کا وقت آجائے گا یا پھر وفاقی حکومت پر دباؤ ہوگا تو وہ دو تین ماہ پہلے الیکشن کا اعلان کرسکتی ہے ۔رہا سوال کہ عمران خان کے اس فیصلے کا کیا انہیں فوری کوئی فائدہ ہوگا تو اس کا جواب سادہ سا ہے کہ فی الحال انہوں نے ایک سیاسی کارڈ کھیل دیا ہے جو ا س کو کھیلنے کے لیے مجبور بھی تھے یا تو اسلام آباد پر چڑھائی کرتے اور کارکنوں کو پولیس کے سامنے پھینک دیتے یا پھر کوئی سیاسی چال چلتے اور فیس سیوینگ حاصل کرتے اس لیے انہوں نے دوسرے آپشن کو چنا۔کیا دوسرے آپشن پر فوری عمل کرپائیں گے تو ہنوز دلی دوراست۔لیکن اس دوران اصل چیلنج بہرحال وفاقی حکومت کا ہے کہ وہ اس ملک کی حکمران ہے اورعوام کو کچھ ریلیف دینا ان کا فرض ہے کیا وہ اپنا یہ چیلنج پوراکرپائے گی تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ۔۔ہنوز دلی دوراست۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button