ColumnNasir Sherazi

میانوالی کا چنا .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

تخلیق کائنات کے ساتھ ہی اس میں بسائی جانے والی مخلوقات کی ضرورت کی ہر چیز پیدا کردی گئی، زندہ رہنے کیلئے ہوا، خوراک اور پانی ضروری قرار پائے، خطہ ارض پرمختلف ملکوں،مختلف موسموں میں رہنے والوں کیلئے وہ کچھ پیدا کیا گیا جو ان کیلئے ضروری تھا، پھر انسان کو عقل و شعور عطا کیا وہ اپنی تدبیر اور استعداد سے اپنے معاملات میں بہتری لائے۔
دنیا بھر میں خوراک پر ریسرچ کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے زیادہ طاقت اناج میں ہے،گندم، چاول، مکئی، جو اورچنا سب اناج خاندان سے ہیں اس کے بعد حلال جانوروں کا گوشت اور دودھ غذائیت سے بھرپورہے، پھلوں اورسبزیوں کا اپنا خاندان ہے، سبز رنگ کی سبزیاں دیگر کی نسبت زیادہ فوائد رکھتی ہیں، اناج میں سب سے زیادہ طاقت کا خزانہ جو میں ہے، تاریخ میں ہمیں نان جویں کا ذکراس اعتبارسے ملتا ہے اس کا آٹا سیاہی مائل ہوتاہے، اس کی روٹی بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد گندم کا نمبر آتا ہے جس کی متعدد اقسام تیار کی جاچکی ہیں کچھ سرخی مائل ہیں جن کا آٹابھی سرخ آٹا کہلاتا ہے کچھ دیکھنے میںسنہری نظر آتی ہیں لیکن انکا آٹا سفید ہوتا ہے، چاول مہنگی فصل اور مہنگی غذا ہے اس کی کاشت کیلئے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ چاول کی فصل دیگر فصلوں کی نسبت کئی گنا زیادہ پانی پی کر جوان ہوتی ہے جن ممالک کو پانی کی کمی کا سامنا ہے وہاں چاول کی کاشت نہیں کی جاتی، وہ اتنے پانی سے دو فصلیں حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، مکئی کے دانوں میں قدرتی مٹھاس پائی جاتی ہے جو اس کا آٹا تیارکرنے کے بعد تک قائم رہتی ہے۔
چنا اپنی حیثیت میں اور آٹا بننے کے بعد بھی قوت کا خزانہ سمجھا جاتا ہے، چنے کی دو اقسام ہیں سفید اور سیاہ۔ سفید چنا گندمی اور گلابی رنگ کے درمیان کارنگ رکھتا ہے اس میں بھی دو اقسام پائی جاتی ہیں ایک چھوٹے سائز میں جبکہ دوسرا بڑے سائز میں نظر آتا ہے۔ کالے چنے کا چہرہ پچکا ہوا ہوتا ہے یہ ریتلے اور گرم علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے ، بادی النظر میں یہ اُس شخص کی طرح نظر آتاہے جسے مکمل خوراک میسر نہ ہو۔یہ دیکھنے میںکمزور نظر آتا ہے لیکن گنوں کا پورا ہوتا ہے، میانوالی کا چناہمارے ملک کے علاوہ دنیا بھرمیں بہت مشہور ہے۔ ذائقے کے اعتبارسے بھی یہ سب سے زیادہ لذیذ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی مرض میںمبتلا ہو تو اسے کالے چنوں کا سوپ نکال کر دن میں تین مرتبہ ایک ایک کپ پلایا جائے تو اس کی کھوئی ہوئی توانائیاں جلد بحال ہوجاتی ہیں۔
میانوالی کاچنا گھوڑے کی من پسند خوراک ہے،گھوڑا دنیا بھر میںوہ واحد جانور ہے جو وزن اٹھانے کے ساتھ ساتھ دوڑتا بھی ہے۔ گھوڑے کے علاوہ یہ کمال کسی اورجانور میں نہیں، دیگر جو جانور دوڑتے ہیں وہ وزن نہیں اٹھاسکتے جووزن اٹھا سکتے ہیں وہ دوڑنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گھوڑے کی خوراک سے چنا نکال دیںتوگدھا بن جائے گا یعنی صرف گھاس کھائے گا تو گدھے کی طرح شاید وزن تو کھینچ لے لیکن دوڑنا اس کے بس کی بات نہ رہے گی۔
کوئٹہ شہر میںپیدائش اورزمانہ طالب علمی سے جڑی متعدد باتوں میں چنے سے جڑی بھی کچھ یادیں ہیں، کوئٹہ پھلوںکا شہر ہے وہاں ریڑھیوں پر اچھا اورسستا پھل یوں نظر آتا تھا جیسے بڑے اور ترقی یافتہ شہروںمیں ریت اور اینٹوں سے لدی گاڑیاں نظر آتی ہیں، تعلیمی اداروں کے باہر فروٹ سے لدی گاڑیاں اورٹھیلے درجنوں کی تعداد میںقطاروں میںکھڑے ہوتے تھے، طلبا بریک ٹائم میںان سے من پسند اور سیزن کا پھل خرید کر کھاتے ، اس کے علاوہ دوسری چیز جو طلبا کو بہت بھاتی تھی وہ چنے تھے، ابلے ہوئے چنوںسے بھرا پیالہ،املی اور آلو بخاری کی چٹنی کے ساتھ چونی اٹھنی میں دستیاب ہوا کرتا تھا، وقت اور مہنگائی کے باعث یہ ایک روپے کا ہوا اب پانچ سے دس روپے میں دستیاب ہے،چنوںسے بھراپیالہ ہر زمانے میں لنچ کا متبادل رہا، بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات کی بھرمار کے بعد اب پھل اور چنے کے پیالے کی جگہ نمکو، چپس اور جعلی مشروبات کے ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ نے لے لی ہے جن کا فائدہ کوئی نہیں نقصانات بے شمار ہیں۔
کراچی شہر کوہر قسم کے فیشن کا پہلا گھرکہا جاتا تھا، فیشن لباس کا ہو خوراک کا یا کسی اور چیز کا، اس کا آغاز کراچی سے ہوتاتھا، وہاں فیشن پرانا ہونے کے بعد ملک کے دوسرے شہروں کا رخ کرتا تھا، ذرائع ابلاغ کی ترقی و تیز رفتاری نے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں، اب ہوا کے دوش پر سفر کرتی خبر اور فیشن لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔ فیشن تیزی سے بدلتے رہتے ہیں اس کاروبار سے وابستہ اداروں اور کاروباری شخصیات کی روز افزوں ترقی کا دارو مار نت نئے فیشن آنے اور جلد جانے پر ہے۔ قوت بخش غذائیں پھل اور چنے کا فیشن بھی بہت پرانا ہوگیا بلکہ یوں سمجھئے کہ ختم ہوگیا، اب تو ہر دوسرے منہ میں چیونگم نظر آتی ہے اور اچھا بھلا انسان جانوروں کی طرح جگالی کرتا نظر آتا ہے، مشرقی ملکوں کا کلچر اور ایگری کلچرل زوال پذیر ہے۔
چنے اور گُڑ کا کبھی دامن چولی کا ساتھ ہوا کرتا تھا، گُڑ کی جگہ ریوڑیوں نے لے لی پھر وہ زمانہ آیا جب دونوں کی کوئی جگہ نہ رہی ، گُڑ اور چنا پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی افواج میں بہت مقبول ہے،دو مُٹھی چنے گُڑ کی ایک ڈلی کے ساتھ پانی کی چھانگل ہو تو فوجی سپاہی کا دن گذر سکتا ہے، چنے کی فصل پک کر تیار ہوکر چنے کا رنگ سیاہ کردیتی ہے، سیاہ رنگ اختیار کرنے سے کچھ پہلے چنا سبز جھاڑ جھنکار کے ساتھ سبز ہی ہوتا ہے، سبز چنے کو جھاڑیوں، پتوں سمیت آگ لگادی جائے تو یہ اپنے ہی پانی میںروسٹ ہوجاتا ہے اور خوب خوب لذت دہن فراہم کرتا ہے، نئی نسل ان تمام ذائقوں سے ناآشنا ہے اور کافی حد تک زندگی کی حقیقتوں سے بھی۔
چنے کو ریت کے ساتھ بھٹی میں بھون لیا جائے تو اس کا چھلکا اتر جاتا ہے ، اندر سے سنہری رنگ کا چنا یوںبرآمد ہوتا ہے جیسے برائلر مرغی کے انڈے سے اُجلا اُجلا چوزہ باہرنکلتا ہے۔
موسم ہر آنے والے دن کے ساتھ خنک ہورہا ہے نومبر کی چھبیس تاریخ کو میانوالی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد آنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں جلسے اور مختصرقیام کی اجازت ہوگی، دھرنا دینے اور اسلام آباد کے حساس مقامات کی طرف بڑھنے کی نہیں، ایسا کیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کی ڈیوٹی پر موجود سپاہ ان کا راستہ روکے گی، راستہ روکنے والوں کے پاس ڈنڈے، آنسو گیس کے فائر کرنے والی بندوقیں اور آخری حل کیلئے گولی چلانے والی بندوقیں بھی ہوں گی۔ اس معرکے کی اہم بات یہ ہے کہ متحارب گروپوں کی جیبیں گُڑ اور چنے کے پیکٹوں سے بھری ہوں گی، قرین از قیاس ہے کہ میانوالی کا چنا اپنی تمام تر خوبیوں اور طاقت رکھنے کے باوجود شکست کھاکر پسپا ہوجائے گا، اگر کچھ اور ہو ا تو اس کی قیمت پاکستان کو ادا کرنا پڑے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button