ColumnImtiaz Aasi

ہم اگر عرض کریں گے توشکایت ہو گی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

امور مملکت کی بہتری کیلئے کسی کو رائے دینے پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔سیاست دان ہو یا کوئی عام شہری اسے اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ سراج الحق جیسے فقیر منش امیر جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے مروجہ طریقہ کار کی روشنی میں آرمی چیف کی تقرری بارے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیاآرمی چیف کی تقرری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح سنیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے تو کون سی قیامت برپا ہو گئی جو محترم عرفان صدیقی نے سراج الحق کے اس بیان پر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر دیا۔کالم نگار موصوف کا کہنا ہے بلند عسکری عہدے پر پہنچنے والے سبھی افسر اہلیت، قابلیت اور صلاحیت ، حب الوطنی،جرأت اور بہادری کے لحاظ سے کم وبیش ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتے ہیں۔کالم نگار کی معلومات کیلئے عرض ہے، تاریخ گواہ ہے جتنی تقرریاں سنیارٹی سے ہٹ کر ہوئیں وہ تمام متنازعہ تھیں ۔ ایوب خان کوپہلے اسکندر مرزا نے ملازمت میں توسیع دی اور سنیارٹی سے ہٹ کر چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا تو 27اکتوبر 1958 کوایوب خان نے اسکندر مراز کو برطرف کرکے مارشل لاء لگایا ۔ایوب خان دس سال تک سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔1969 میں دوسری بار
ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا ۔جنرل یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم سے استعفیٰ لے لیا جس کے بعد جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف مقرر کردیا جو 1976 تک چیف آف آرمی سٹاف رہے ۔تاریخ شاہد نے ذوالفقار علی بھٹو نے زہین فطین ہونے کے باوجود چھ لیفٹیننٹ جنرلز کو سپر سیڈ کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا ۔جس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں مارشل لاء لگا اور بعد ازاں انہی کے ہاتھوں وہ تختہ دار پر چڑھ گئے ۔نواز شریف نے جنرل آصف نوازکو آرمی چیف بنا یاتو کچھ عرصہ بعد ان کی آپس میں چپقلش شروع ہو گئی جس کے بعد آپ کے ممدوح نواز شریف نے کور کمانڈر لاہور جنرل اشرف ، جرنل غلام دستگیر اور ایک تیسرے کی سمری صدر غلام اسحاق خان کو ارسال کی جنہوں نے تینوں نام مسترد کرتے ہوئے کور کمانڈرکوئٹہ جنرل وحید کاکڑ کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا۔ چنانچہ جنرل وحید کاکڑ کے دور میں ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔نواز شریف کو 1997 میں اقتدار ملا تو جنرل جہانگیر کرامت کو چیف آف آرمی سٹاف مقر ر کیا ۔
جب انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز دی تو ان سے استعفے ٰ لے لیا گیا۔نواز شریف نے پرویز مشرف کو ایک کمزور اور اردو سپیکنگ جان کر جہانگیر کرامت کی جگہ نیا آرمی چیف مقرر کر دیا۔ درحقیقت اپنی کمزوری کی بدولت نواز شریف نے فوج کی مداخلت کی راہ ہموار کی جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔جناب عرفان صدیقی نے سابق چیف جسٹس صاحبان جناب آصف سعید خان کھوسہ اور جناب ثاقب نثار پر تنقید کے تیر برسائے ہیں۔ موصوف کو شاید علم نہیں جناب کھوسہ نے اپنے دور میں ملک بھر کی جیلوں میں برسوں سے سزائے موت کی کوٹھڑیوں میں مقید قیدیوں کی اپیلوں کا بہت کم عرصہ میں فیصلہ کرکے اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ میں ریکارڈ قائم کرکے ہزاروں قیدیوں اور ا ن کے لواحقین کی دعائیں لیں۔
جناب کھوسہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں اور بطور جج کئی ایک عالمی ایوارڈ کے حامل ہیں۔جناب صدیقی کو یاد ہو گا جب ثاقب نثار کو چیف جسٹس مقر ر کیا گیا تو شریف خاندان نے خوشی کے شادیانے بجائے تھے ۔ جب ثاقب نثار نے ان کی حسب منشاء فیصلے دینے سے معذرت کی تو وہ نواز شریف کی نظروں میں مجرم ٹھہرے ۔ہم کالم نگار کی اس بات سے متفق ہیں نئے پاکستان کے معمار کے دور میں سپہ سالار کی تقرری کے معاملے کو زیادہ ہوا دی گئی ورنہ ماضی میں آرمی چیف کی تقرری معمول کا عمل ہوتا تھا البتہ ہم موصوف کی اس بات پر معترض ہیں کہ بھارت میں بہت زیادہ آرمی چیف تعینات ہوئے اور ہمارے ہاں ان کی تعدادکم رہی ہے اس ضمن میں عرض ہے ہمارا ملک طویل عرصے تک مارشل لاء کی لپیٹ میں رہنے سے آرمی چیف کی تقرری میں اتنا بڑا وقفہ آیا وگرنہ مارشل لاء نہ ہوتا تو مملکت خداداد میں عسکری سربراہوں کی اتنی کم نہ ہوتی۔کالم نگار کی خدمت میں یہ عرض کئے دیتاہوں یہ نواز شریف ہی ہیں جو مارشل لاء کی پیداوار ہیں ۔تعجب ہے جو لوگ مارشل لائوں کی پیداوار ہیں، نے اپنے دور میں آرمی چیف کی تقرری من پسند افسران میں سے کرکے نتیجہ دیکھا لیا۔افسوس ناک پہلو یہ ہے ایک سزایافتہ اور عدالتی بھگوڑا سپہ سالار کی تقرری بارے مشورے دتیا رہا ۔ آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار شریف خاندان کی خواہش کے مطابق فیصلے دیتے تو ان کی کارکردگی پر کالم نگار موصوف کو لب کشائی کی ضرورت نہ ہوتی ۔ شریف خاندان اور آصف سعید کھوسہ کے بھائی اور نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔نواز شریف کی لاکھ کوششوں کے باوجود جناب کھوسہ نے کسی قسم کے دبائو میں آئے بغیر فیصلہ دیا۔پانامہ کیس کافیصلہ آنے سے چند روز پہلے کی بات ہے ہمیں ایک دوست کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنماسید خورشید شاہ کے گھر جانا ہوا۔شاہ صاحب سے یہ میر ی ملاقات دو عشروں بعد تھی ۔ علیک سلیک کے بعد پہلی بات جو انہوں نے کی پانامہ کیس کاکچھ نہیں بنے گا۔میں نے شاہ صاحب کو جواب دیا ایک جج ایسا ہے جو کسی کی نہیں مانتا وہ آصف سعید کھوسہ ہے۔ سید خورشید شاہ کہنے لگے نہیں اس کا بھائی نواز شریف کا پرنسپل سیکرٹری رہ چکا ہے ۔خیر میں اپنی بات پر قائم رہا۔پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد میں دوبارہ شاہ جی کے گھر گیا اور انہیں اپنی بات یاد دلائی تو کہنے لگے تم نے ٹھیک کہا تھا۔لہٰذا آپ ہی اپنی ادائوں پر غور کریں۔ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button