ColumnImtiaz Ahmad Shad

کائنات اور ذاتی سوچ میں فرق .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

ہر شخص کی دس فیصد زندگی حقیقی جبکہ نوے فیصد اُس کی سوچ ہوتی ہے، یعنی بجائے اِس کے کہ کہنے والے کی بات کو صاف ذہن کے ساتھ سُنا جائے اگر ذہن میں ہے کہ دوسرا آدمی یہ چاہتا ہے اور وہ بات جو بھی کر رہا ہے اُس کا مطلب یہ ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بات سُننے والا اپنی سوچ کے مطابق سمجھ لیتا ہے وہ کہنے والے نے کہی ہی نہیں ہوتی اور نہ کہنے والے کے وہم و گمان میں ہوتی ہے۔بعض اوقات بات کہنے والا کائنات کی بات کر رہا ہوتا ہے اور سننے والااسے دیوانہ اور مجنون تصور کرتا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض رہنما اپنے لوگوں کو غلامی سے نجات کی راہ دکھا رہے ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ اپنی محدود سوچ اور اس رہنما سے بغض رکھنے کی وجہ سے آزادی ایسی نعمت کو بھی ناپسندیدگی کی حد تک ٹھکرا دیتے ہیں۔ اگر سوچ صد فیصد مثبت ہو تو زندگی بھی صد فیصد حقیقی ہوتی ہے اور دُنیا حسین لگتی ہے بصورتِ دیگر دوسروں میں عیب نظر آتے ہیں اور یہ عیب اپنی سوچ کی وجہ سے ہمیشہ قائم رہتے ہیںجس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں آتا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام انسان ایک جیسی سو چ نہیں رکھتے۔ چناچہ کچھ لوگ کائناتی، کچھ لوگ عالمی، کچھ لوگ ملکی، کچھ لوگ صوبائی، کچھ لوگ علاقائی، کچھ لوگ خاندانی اور کچھ لوگ صرف ذاتی سوچ رکھتے ہیں کہ انکی سوچ کا محور صرف انکی ذات ہی ہوتی ہے اوروہ ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ میں کل کیا کھاؤں گا، کیا پہنوں گا، کہاں رہوں گا، میری مالی ترقی کیسے ہوگی، میں صحت مند کیسے رہوں گا،اور میں دوسروں سے آگے کیسے بڑھوںگا۔غرضیکہ انکی سوچ انکی ذات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ خاندان والوں، علاقہ والوں، صوبوں والوں، ملک والوں اور دنیا والوں کا کیا حال ہے اور ان پر کیا بیت رہی ہے۔اسی ذاتی سوچ رکھنے والوں کیلئے ایک حدیث مشہور ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو تباہ و برباد کردو کہ وہاں جرائم اور گناہ بہت بڑھ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ حد سے زیادہ نافرمان ہیں۔فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اس علاقے میں فلاں شخص بڑا متقی اور پرہیزگار ہے اس کا کیا کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو بھی ان کے ساتھ ہی ہلاک کردو کیونکہ اس کو ساری زندگی اپنی ہی فکر رہی مگر اپنے پڑوسیوں اور محلہ والوں کیلئے کبھی نہ سوچا کہ ان کا دنیاوی اور دینی بھلا کیسے ہو اور یہ لوگ کس حال میں ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں قریباً پچانوے فیصد تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ بے یارو مددگار اور افراتفری کا شکار نظر آتا ہے۔ جب تک ایسے لوگ اپنی سوچ تبدیل کرتے ہوئے خاندانی سوچ اور جس قدر ممکن ہو اس سے بھی اعلیٰ سوچ اختیار نہیں کرتے اس وقت تک دنیا میں امن و سکون ، غریبوں اور مسکینوں کے دکھوں کا مداوا اور انسانیت کو تباہی سے بچانا ایک دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔ ذاتی سوچ رکھنے والوں کے بالکل برعکس کچھ لوگ کائناتی سوچ رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔بطور مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس میں سر فہرست اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول حضرت محمدﷺ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ ہم نے آپﷺ کو تمام جہان والوں کیلئے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔اس آیت میں ’عالم‘ کی جمع ’عالمین‘ استعمال کیا گیا ہے جسکے معنی ’تمام جہاں‘ یعنی کائنات کے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ صرف اس عالم دنیا کیلئے نہیں بلکہ پوری کائنات کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں۔ رحمت کا مطلب دوسروں پر رحم و کرم کرنا یعنی ان کو فائدہ پہنچانا ہے۔ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مومنوں کیلئے ’رؤف رحیم‘ کہا ہے۔ ’رحیم‘ کے معنی ہیں دوسروں کو فائدہ پہنچا کر ان پر رحم کرنے والا او ر ’رؤف‘ کے معنی ہیں دوسروں سے تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرکے رحم کرنے والا۔ بہرکیف قرآن کریم کی دونوں آیات سے یہ ثابت ہوا کہ آپﷺ کائناتی سوچ رکھتے تھے اور آپﷺ کی پوری زندگی اس بات کی گواہ ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی بھی صرف اپنی ذات و خاندان اور ملک و قوم کیلئے ہی نہیں سوچا بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات کی بہتری و بھلائی اور ان سے تکالیف و پریشانیوں کو دور کرنے کی سوچتے تھے۔ اگر پوری دنیا کے انسان مسلم ہوں یا غیر مسلم، اپنی اپنی سوچ کائناتی بنالیں اور اسکے مطابق حتی الا مکان جدوجہد کرکے زندگی گزاریں تو یہ بعید نہیں کہ یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن کر تباہی و بربادی سے محفوظ ہوجائے گی۔ جو کوئی بھی ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو عام کرنے ، غلامی کی زنجیریں توڑنے اور تمام لوگوں کو قانون کی نظر میں برابری کی بات کرتا ہے ہم اسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیںاور اپنی اپنی سوچ کے مطابق تاویلیں اور دلیلیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیںلیکن یہاں یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ ہر انسان جس سوچ کا حامل ہوتا ہے اس پر اسی سوچ کے مطابق کوشش اور جدو جہد کرنا لازم ہوتا ہے۔ مثلاً،یہ درست نہیں کہ سوچ تو ملکی سطح کی بنالیں اور جدوجہد اور کوشش صرف اپنی اور اپنی اولادکیلئے ہو کیونکہ اگر صرف سوچ رکھنے سے نتیجہ برآمد ہونے لگے تو پھر تو ہر شخص ہی کائناتی سوچ بنالے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
بہرحال سوچ کے مطابق ہر انسان کو قربانی دینی ہوتی ہے اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ہر انسان کی جو سوچ ہوتی ہے اسی سوچ کے مطابق اس کی آزمائش اور امتحان بھی ہوتا ہے۔ جانی ومالی بلکہ ہرطرح کی بلاؤں، آفتوں اور پریشانیوں کو اس پر مسلط کرکے آزمایا جاتا ہے کہ اس کے صبر کا پیمانہ اسکی سوچ کے مطابق ہے یا نہیں۔ اب اگر وہ اپنی سوچ کے مطابق اس امتحان میں سو فیصد کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اسی کے مطابق اس کو طاقت اور عہدہ دیا جاتا ہے اور پھر اسکی سوچ کے مطابق نتیجہ برآمد ہونے لگتا ہے۔ کائناتی سوچ اور ذاتی سوچ والے انسان میں فرق ہی بنیادی طور پر ـ کلمہ طیبہ کے اصل مطلب اور مفہوم سے آگاہ کرتا ہے۔جب انسان کلمہ طیبہ کی حقیقت کو پا لیتا ہے تب وہ سہی معنوں میں غلامی سے نکل کر آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہو پاتا ہے۔ انسانیت کا درد ہی دراصل انسان کو اپنی تکالیف سے نجات دلا سکتا ہے۔اپنی ذات کے بارے میں سوچنے والے ہمیشہ دکھوں اور تکلیفوں میں گھرے رہتے ہیں،خواہ وہ سال میں دو مرتبہ عمرے ادا کریں ،یا اربوں ڈالرز کی ملکیت رکھیں،سکون قلب میسر نہیں ہوتا۔ سکون قلب فقط مثبت سوچ اور اللہ کی مخلوق کو درست راہ دکھانے میں ہی ہے۔اگر کوئی ایسا رہنما میسر آجائے تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، ہر بات میں کیڑے نکالنا کسی بھی معاشرے کو تنزلی سے ترقی کی جانب نہیں لے جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button