Ali HassanColumn

فوج کے سربراہ کی تقرری .. علی حسن

علی حسن

 

یہ عجیب سی روایت ہے کہ بری فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو سربراہ حکومت کا اختیار قرار دیا گیا ہے۔ جب بھی بری فوج کے سربراہ کی تقرری کا موقع پیش آتا ہے تو قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ رواج یہ ہے کہ محکمہ دفاع وزیر اعظم کو جنرلوں کے نام روانہ کرتا ہے ، محکمہ ایسے کا ویسے ہی وہ فائل سربراہ حکومت جو وزیر اعظم ہوتے ہیں کو روانہ کر دیتاہے ۔ وہ ایک نام صدر مملکت کو اس سفارش کے ساتھ روانہ کرتے ہیں کہ مذکورہ صاحب کی تقرری کر دی جائے۔ اگر سربراہ حکومت غیر فوجی ہے تو اسے کیا علم کہ اہلیت میں کون سے جنرل سرفہرست ہیں۔ غیر فوجی حکمران نے تو وہ علاقے بھی نہیں دیکھے ہوتے ہیں جہاں جنرل صاحبان نے خدمات انجام دی ہوئی ہوتی ہیں۔ فوج تو اپنے حکم کی وجہ سے بہت بڑا ادارہ ہے ہی لیکن اس ادارے میں تو سوئی دھاگہ، ماچس، مٹی کا تیل ، لالٹین سے لے کر ہائی آکٹین ، ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، ٹینک، توپ وغیرہ استعمال میں ہوتے ہیں۔ ان ضرورتوں کو بہتر طور پر کوئی جنرل ہی سمجھ سکتا ہے۔ حکومت کا تو علم ہوتا ہے کہ بری فوج کی سربراہی کیلئے اہلیت کے کیا نکات ہوتے ہیں، کیا ضروریات ہیں اور کن حالات میں کس اہلیت کے حامل جنرل کی تقرری کی جانی چاہیے۔ بری فوج کے سربراہ کی تقرری کی بھاری بھر کم اور گراں قدر ذمہ داری سیاست دانوں کے ناتواں کندھوں پر کیوں عائد کی گئی ہے۔ کسی بھی غیر فوجی وزیر اعظم کو تو فوج میں کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کے ماتحت محکموں کے نام تک معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ پھر فوج میں ایک اور رواج ہے کہ اوپر والا ا فسر اپنی ماتحتی میں دو درجے نیچے کے افسر کے بارے میںہر طرح کی مکمل محکمہ جاتی اور ذاتی معلومات رکھتا ہے۔ سیاسی وزیر اعظم کی رائے کیوں ضرور ی سمجھی جاتی ہے۔ آج کل ایسے ہی ہورہا ہے۔ وزیر اعظم تین چار قبل لندن تشریف لے گئے تاکہ اپنے ذاتی دیگر معاملات کو دیکھنے کے علاوہ اپنے بڑے بھائی سے بھی فوج کے سربراہ کی تقرری کے بارے میں مشاورت کریںحالانکہ نواز شریف تو نااہل سیاست داں قرار دیئے گئے ہیں، سزا یافتہ ہیں۔ ملکی معاملات میں ان کی مشاورت یا ان کی مداخلت کیا معنی رکھتی ہے، لیکن کوئی کیا کر سکتا ہے، جو خاندان سیاست کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ سزا یافتہ شخص کو بھی سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔
ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع اور ترقی سے لے کر بری فوج کے تمام ہی سربراہ تنقید کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ایوب خان کے بارے میں ان کے دست راست جنرل اعظم خان نے راقم الحروف کو ایک انٹرویو میں کہا تھا ایوب خان کو ملازمت میں توسیع اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان نون سے اسکندر مرزا نے دلوائی تھی جو غلط تھی۔ اس توسیع کی وجہ سے اعظم خان ، جنرل یوسف وغیرہ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اعظم خان کی عمر 51برس تھی جب انہیں ریٹائر ہونا پڑا تھا جس کا انہیں قلق تھا۔اسی طرح جنرل حمید گل نے ایک انٹر ویو میں کسی صحافی کو بتایا تھا کہ فوج کی سربراہی کیلئے جو فہرست وزیر اعظم کو بھیجی گئی تھی ، اس میں ان کا نام سر فہرست تھا لیکن آصف نواز جنجوعہ کو سربراہ مقرر کر دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے سربراہ مقرر کیا تو ان سے سینئر آٹھ جنرلوں کو ان کی تقرری کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ان میں جنرل عبدا لمجید ملک بھی شامل تھے۔ ایک انٹر ویو میں ان کا کہنا تھا ان کے اوپر چھ اور بھی جنرل تھے ۔ وہ تمام بھی رخصت ہوئے تھے ۔ جنرل مجید آرمی چیف کی تقرری کے سلسلے میں وزیر اعظم کی صوابدید پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے تھے ۔وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق کے درمیاں شدید چپقلش کے بعد جنرل عبدالوحید خان کاکڑ نے دونوں کو ان کے گھروں رخصت کر دیا تھا اور نئے انتخابات کرانے کی ہدایت کی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے ہی دور میں جنرل جہانگیر کرامت سے نبھ نہ سکی تھی۔ ایسا ہی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ معاملہ ہو گیا تھا انہوں نے کارگل میں کارروائی کر دی تھی۔ دونوں کے تعلقات شدید کشیدہ ہو گئے تھے جس کا اختتام نواز شریف حکومت کے خاتمہ کی صورت میں نکلا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کی تقرری بھی میاں محمد نواز شریف نے کی تھی۔ ان سے سینئر جنرلوں کو گھر جانا پڑا تھا۔ جنرل علی قلی خان اور خالد نواز خان ان میں شامل تھے ۔ علی قلی خان کا تعلق ایک فوجی خاندان سے تھا،ان کے والد مرحوم جنرل حبیب اللہ خان ایوب خان کے سمدھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ علی قلی کو اس لیے نظر انداز کیا گیا کہ ان کے جنرل کاکڑ سے اچھے تعلقات تھے جو نواز شریف کو پسند نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کی تقرری کی سفارش آج کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف جو اس وقت حکوت پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے، اپنے گہرے دوست چودھری نثار علی خان جو نواز شریف کی کابینہ میں وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے، کی مشترکہ طور پر کی تھی۔ جنرل مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی حکومت سے بے دخلی کے کئی ماہ بعد تک نواز شریف، شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کو طعنہ دیا کرتے تھے ، لیکن نواز شریف اپنی کوہ گران جیسی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے کہ انہیں کس نے ہدایت کی تھی یا مشورہ دیا تھا کہ جنرل ضیا ء الدین بٹ کی تمام مقررہ طریقہ کار، رواج اورضابطوں کی ضروری کارروائیوں کے بغیر بری فوج کا سربراہ ایسے وقت میں مقرر کریں جب فوج کے سربراہ بیرون ملک سرکاری دورے پر گئے ہوئے تھے۔
جنرل جاوید قمر باجوہ کی ان کی چھ سالہ ملازمت کے بعد نومبر کی 29 تاریخ کو ریٹائرمنٹ ہونا ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی ہدایت پر کریں گے۔ عمران خان پہلے کہتے تھے کہ جنرل باجوہ کو نئے انتخابات تک مزید توسیع دی جائے جس کیلئے نواز شریف آمادہ نہیں ہیں۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے بھائی پر قومی خزانہ میں خیانت کرنے اور نقصان پہنچانے کا الزام ہے ، انہیں کیوں کر فوج کے سربراہ کی تقرری کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے کہا کہ جو بھی مقرر کیا جائے اسے میرٹ پر مقرر کیا جائے۔ فوج میں جو حضرات بھی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر متعین ہوتے ہیں وہ میرٹ کی بنیاد پر ہی متعین ہوتے ہیں۔ فوج کے سربراہ کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کے حوالے کرنے پر مبصرین کا ایک حلقہ معترض ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جب تمام ہی لیفٹیننٹ جنرل میرٹ پر مقرر ہوتے ہیں تو پھر کیوں نہیں سینئر جنرل کو چیف مقرر کر دیا جاتا ہے تاکہ قیاس آرائیوں کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ نظر انداز کئے جانے والے لیفٹیننٹ جنرلوں کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ پارلیمنٹ کو اتفاق رائے سے اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button