ColumnM Anwar Griwal

جٹ مشائخ اور مشاہیر! ۔۔ محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا اور ہم نے تم میں شعوب اور قبائل (ذاتیں اور برادریاں) بنائے تاکہ تم پہچانے جا سکو۔ تحقیق تم میں زیادہ افضل وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے، بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا باخبر ہے‘‘۔ یہ سورۃ حجرات کی آیت نمبر 13کا ترجمہ ہے، جسے ع م چودھری نے اپنی کتاب ’’جٹ مشائخ اور مشاہیر‘‘ کے دیباچہ میں شامل کیا ہے، انہوںنے طویل دیباچہ ’’پگڑی سنبھال جٹا!‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ جس میں انہوںنے جاٹوں کی پوری تاریخ کو کھلی کتاب کی طرح سامنے کھول کر پیش کر دیاہے۔ع م چودھری صحرائے چولستان کے کنارے آباد شہرِ نواباں بہاول پور سے تیس کلومیٹر دور گوشہ نشینی کی زندگی سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تصوف کی دنیا کے آدمی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اپنی کُتب کی تشہیری مہم کا کبھی حصہ نہیں بنے۔ زیر نظر کتاب اُن کی روز و شب کی محنت ، تحقیق اور دستِ ہُنر کا نتیجہ ہے۔ کتاب کے سرِ ورق پر ہی کتاب کے مندرجات کا خلاصہ درج کر دیا گیا ہے، ’’جاٹوں کی تاریخ، قدامت، وُسعت، معرکہ آرائیاں، جاٹوں کی گوتیں،مشائخ اور مشاہیر کا تحقیقی تذکرہ‘‘ ۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کتاب کے موضوعات کس قدر متنوّع اور جامع ہیں۔ جاٹوں سے متعلق کون سی ایسی چیز ہے، جو اس کتاب میں زیر بحث نہیں لائی گئی۔ واضح رہے کہ ع م چودھری کم و بیش 20کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں درود شریف، علامہ اقبالؒ اور دیگر تحقیقی کتابیں شامل ہیں۔
جاٹوں سمیت ہر قبیلہ یا برادری کے بارے میں لوگوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ یقیناً جاٹوں کے بارے میں بھی بہت سی کُتب لائبریریوں میں تشتگانِ علم کی پیاس بجھا رہی ہیں۔ مگر ’’جٹ مشائخ اور مشاہیر‘‘ جہاں عنوان کے لحاظ سے بھی منفرد ہے، وہاں اس کے اندر کا مواد بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ع م چودھری نے جاٹوں کے بارے میں تمام معلومات کو ایک ہی کتاب میں جمع کر کے اس کتاب کو امر کر دیا ہے۔ مشائخ اور مشاہیر سے ہٹ کر بے شمار کتابیں اِس موضوع پر لکھی گئیں، مگر اُن میں سے اکثر کتابوں میں اعتدال موجود نہیں، اُن میں کسی ایک برادری کو کئی صفحات پر پھیلا دیا گیا ہے تو دوسری طرف کئی ایسی گوتیںہیں، جن پر دو جملے بھی مشکل سے ملتے ہیں، تاہم چودھری صاحب نے بہت حد تک اعتدال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں جاٹوں کی تاریخ کے ہر پہلو پر بھر پور روشنی ڈالی ہے، تاریخ کی تاریکیوں سے تحقیق کے ذریعے ایسے روشن گوشے تلاش کئے ہیں، جو زمانے کی گردشوں کے نیچے دب کر رہ گئے تھے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے کمال محنت سے مشائخ اور مشاہیر تلاش کئے، جو اکثر لوگوں کے علم میں نہ تھے۔ معروف جاٹوں کا تذکرہ تو عام لوگوں نے بھی سُن رکھا ہے، مگر بہت سے ایسے ہیں، جن کے بارے میں شاید بہت ہی کم لوگ جانتے تھے۔
ع م چودھری کی تحقیق مشائخ و مشاہیر تک ہی محدود نہیں،انہوںنے دنیا بھر سے جاٹوں کی ہزاروں سال پرانی تاریخ ڈھونڈ نکالی اور تعلق حضرت نوح ؑ کے ایک بیٹے ’’یافث‘‘ سے جوڑا۔ پھر جاٹوں کی عادات اور سرگرمیوں کو مثالوں کے ساتھ پیش کیا۔ پھر دنیا کے جن ممالک میں جٹ گئے، یا پائے گئے، اُن کا تذکرہ بہت مفصّل انداز میں کیا۔رسول کریمﷺ نے معراج سے واپسی پر جب انبیاء کرام کی شکل و شباہت کے بارے میں اپنے اصحاب کو آگاہ کیا تو حضرت موسیٰ ؑکی ہند کے جاٹوں سے تشبیہ دی۔ اِس غلط فہمی کا ازالہ بھی کیا گیا ہے کہ جٹ صرف سِکھ ہی تھے بلکہ گورونانک چونکہ جٹ تھے اور اُن کے پیروکار سکھ تھے، اس سے اندازہ کیا گیا کہ سکھ سے ہی جٹوں کا آغاز ہوا۔ جبکہ گورونانک سے قریباً تین صدیا ں قبل بابا فرید شکر گنج کے کلام میں جاٹوں کا تذکرہ موجود ہے۔ جاٹ خیر القرون میں ہی برضا و رغبت حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے۔ یہ دنیا کے اکثر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ جٹ قوم جہاں مضبوط جسم و جاں کی مالک تھی، وہیں کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ تند خُو، دلیر، جنگجو، ہٹ کے پکے، بے باک، صاف دل واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میںیہ لوگ یہی دو کام (کھیتی باڑی اور لڑائیاں) کرتے رہے۔ مغلوں کے زمانے میں بھی جاٹوں نے اُن کیلئے مسائل کھڑے کئے رکھے، مگر انگریزوں نے اپنی چالاکی اور عیاری کے ذریعے انہیں اپنا ہراول دستہ بنا لیا۔
جاٹ چونکہ پوری دنیا میں آباد ہیں، اس لیے مختلف ملکوں میں ان کے نام بھی مختلف ہیں، عرب ملکوںمیں ’’زط‘‘ اور پاک و ہند سمیت بہت سے ممالک میں جاٹ یا جٹ ہی کہلواتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہندو جاٹوں میں شری کرشن چندر، راجہ بکر ماجیت، دھنّا جٹ، راجہ بھوج، سر چھوٹو رام، ٹوڈر مل وغیرہ شامل ہیں۔ سکھ جاٹوں میں بابا گورونانک، مہاراجہ رنجیت سنگھ، جلھن جٹ، امرتا پریتم ، جگت سنگھ جگا، چودھری چرن سنگھ مشہور ہیں۔ ع م چودھری نے متفرق جاٹوں کا الگ باب باندھا ہے۔ جن میں مہاویر، گوتم بدھ، رستم پہلوان، پورن بھگت، چودھری سر ظفراللہ کے نام شامل کئے ہیں۔ جاٹوں کی گوتوں کی تعدا د پانچ ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے۔
ع م چودھری چونکہ خود بھی تصوف کی وادیوں کے مسافر ہیں، اسی نسبت سے انہوںنے جٹ مشائخ بھی اپنی تحقیق کے نتیجے میں تلاش کر لیے، جن میں حضرت امام ابو حنیفہ ؒ، حضرت شیخ شرف الدین بو علی قلندرؒ، حضرت شیخ بہلول سپراؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حافظ برخوردار ہنجراؒ، حضرت صوفی برکت علی لدھیانویؒ، شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹویؒ اور دیگر شامل ہیں۔ جٹ مشاہیر میں نواب سعد اللہ خان، سلطان فتح علی ٹیپوؒ، چودھری خوشی محمد ناظر، فیض احمد فیض، چودھری ظہور الٰہی، ارفع کریم رندھاوا، ملک خدا بخش بُچہ، بانو قدسیہ وغیرہ شامل ہیں۔ ع م چودھری نے تمام مشائخ اور مشاہیر کے حالات زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں انگریزوں کی تحقیقات پر مبنی کتابوں کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔ انہوںنے اس کتاب کی تکمیل کیلئے161کتابوں سے مدد لی ہے،تب جا کر یہ شاہکار کتاب معرضِ وجود میںآئی ہے۔ چودھری صاحب نے اس کتاب کا انتساب ’’اُن جیالے جٹوں کے نام جنہوں نے سکنڈے نیویا کو فتح کیا اور ملک کمبرک کا نام ’’جٹ لینڈ‘‘ رکھا، جنوبی ایشیا کے ان دلیر جٹوں کے نام جو تاریخ کے افق پر ستاروں کی طرح جگمگاتے رہے ہیں ، ان غیور جٹ نوجوانوں کے نام جو اپنے آپ کو جٹ کہتے اور کہلواتے ہوئے شرماتے ہیں‘‘۔ یہ کتاب خوبصورت اور معیاری کتابیں شائع کرنے والے ادارے ’’قلم فائونڈیشن ‘‘ شائع کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button