ColumnJabaar Ch

جمہوریت ! ۔۔ جبار چوہدری

جبارچودھری

 

ہمارے سیاستدانوں اورسیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بہت فکررہتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت کا تصور صرف اتنا ہی ہے کہ جمہورووٹ کی وہ پرچیاں ہیں جو الیکشن کے موقع پرپولنگ بوتھ پر رکھے گئے ڈبوں میں ڈلتی ہیں اوروہ ان پرچیوں کے نتیجے میں حکومت میں آجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ نہ ان کو جمہوریت کا پتا ہے اورنہ ہی ان کی ضرورت کا۔ان سیاسی پارٹیوں یا ان کے لیڈروں کی سوچ اور رویوں میں کتنی جمہوریت ہے یہ جاننے کیلئے ان کی اپنی پارٹیوں میں موجود جمہوریت کو دیکھ لیں توآپ کو کافی آفاقہ ہوجائے گا۔ان کی اپنی جمہوریت اتنی سی ہے کہ کوئی بھی بات ان کی سوچ کے علاوہ اور اجازت کے بغیر نہ ہو۔فیصل واوڈااگر ارشد شریف کے قتل پرکوئی بات کرے تو وہ پارٹی سے فارغ،میجر خرم حمید روکھڑی پی ٹی آئی کے فوج مخالفت ایجنڈے کا بھانڈاپھوڑے، ان کی فوجی قیادت سے ملاقاتوں اورساتھ مانگنے کی کوششوں پر بات کرے تو وہ پارٹی سے فارغ۔مصطفی نوازکھوکھر اعظم سواتی کی ویڈیوپر بات کرے تو سینیٹرشپ سے فارغ۔یہ تین واقعات تو ابھی کے ہیں جن کے ذریعے ہم سیاسی جماعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھری جمہوریت کو اُبل اُبل کر باہر آتے دیکھ سکتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ہی اس قدر’’جمہوری‘‘ ہیں کہ اپنے ارکان کو اپنے ضمیریا کسی بھی ردعمل کے مطابق بات کرنے پر پارٹی رکنیت ختم کردیتی ہیں تیسری بڑی پارٹی مسلم لیگ نون کا بھی یہی حال ہے بلکہ وہ توکئی حوالوں سے ان سے بھی زیادہ ’’جمہوری‘‘ ہے۔اگر نون لیگ کی جمہوریت دیکھنی ہوتو چودھری نثارعلی خان آف چکری کو دیکھ لیں۔ نوازشریف کی نااہلی کے بعد چودھری نثارعلی خان نے کیا کہا تھا؟ جی بالکل وہی کہا تھا جو آج فیصل واوڈااور میجر خرم حمید روکھڑی نے کہا ہے کہ فوج کوالزامات نہ دیں ۔چودھری نثار علی خان نے یہی کہا تھاکہ میاں صاحب جو ہوگیا اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن اس وقت فوجی قیادت کے خلاف مہم شروع کرنا بھی عقلمندی نہیں۔انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ جی ٹی روڈ پر ریلی نکالنے کے بجائے چپ کرکے موٹروے سے لاہور چلے جائیں لیکن میاں نوازشریف نے کہا کہ اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں،ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے اپنے تیس سالہ قریبی رفیق کی ایک بات برداشت نہیں کی تھی اورچودھری نثارعلی خان کو ان کے گھر بھیج کرخود جی ٹی روڈ پر آگئے ۔پھر وہاں خلائی مخلوق کا بیانیہ بنایا۔مجھے کیوں نکالا کے سوالات پوچھے اور ووٹ کو عزت دو کا بھوت سوارکرکے سڑکوں پر رہے۔آج میاں صاحب ،ان کی پارٹی اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پرچودھری نثار سوچ رہے ہوں گے کہ یہی بات تو میں کہہ رہا تھا کہ فوج سے پنگالینے سے کیا حاصل ہوجائے گا۔یہ بات چودھری نثارعلی خان توسوچ رہے ہوں گے اور شاید اپنے عمل پر خوش اور فخربھی کررہے ہوں گے کہ انہوں نے نوازشریف کے مخلص ساتھی ہونے کا حق اداکیا تھا لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ہمارے یہ جمہوری لیڈر بھی کبھی ایسا سوچتے ہیں؟ کیا حکومت لینے اور اپنے چھوٹے بھائی کو وزیراعظم بنوانے کے بعد میاں نوازشریف کو بھی چودھری نثارعلی خان یاد آئے ہوں گے کہ انہوں نے اس وقت ٹھیک کہا تھا؟ نہیں شاید کبھی نہیں ۔
اسی طرح کیا کل عمران خان کو بھی کبھی احساس ہوگا کہ جن لوگوں کو وہ آج پارٹی سے اس لیے نکال رہے ہیں کہ وہ فوج سے مفاہمت کی بات کرتے ہیں وہ درست تھے اور میں نے غلط فیصلہ کیا تھا انہیں پارٹی سے نکال کر؟اگر کسی کو یہ شک ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی میں ایسی روایت نہیں ہے تو وہ بھی جان لیں کہ مولانا شیرانی، حافظ حسین احمداور ان کے باقی ساتھیوں کو بھی اسی لیے پارٹی سے نکال باہر کیا گیا کہ انہوں نے پارٹی میں جمہوریت اوراپنی رائے دینے کی ہمت کرلی تھی۔وجوہات چاہے کوئی بھی ہوں ہمارے سیاسی لیڈروں کے رویے اس بات کی کسی کو اجازت ہی نہیں دینا چاہتے کہ ان کی بات کے اوپر کوئی اپنی بات کھڑی کرجائے۔جب بھی کوئی پارٹی میٹنگ ہوتی ہے اس میں سب سے پہلی خبر جو باہر نکالی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ پارلیمانی پارٹی نے تمام فیصلوں کا اختیار صدر یا چیئرمین کو دے دیا ہے اس کے بعد پارٹیوں کے اندرکی جمہوریت گئی تیل لینے۔
ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کا سربراہ ہونا وزیراعظم یاوزیراعلیٰ بننے کا بلینک چیک ہوتا ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کے سربراہ بدلنے کا رواج ہی نہیں ڈالا جاتا۔اس وقت تک پارٹی سربراہ نہیں بدلاجاتا جب تک وہ انتقال نہ کرجائے یا پھرکسی عدالت کی طرف سے نااہل نہ ہوجائے۔نون لیگ کا نام سنتے ہی ذہن میں آئے گا کہ یہ شریف خاندان کی پارٹی ہے۔اسی طرح پیپلزپارٹی کا مطلب ہے بھٹواور زرداری کی پارٹی۔تحریک انصاف کا مطلب ہے عمران خان اور جمعیت علما اسلام کا مطلب ہے مولانا فضل الرحمان کی پارٹی۔ہاں اگر کسی پارٹی کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔اس میں باقاعدہ جمہوریت ہے سربراہ منتخب کرنے کا طریقہ کارجو بھی ہولیکن بہرحال ایک طریقہ کار وضع ہے اور جماعت اس کے مطابق کام کررہی ہے ۔اس میں امیرتبدیل ہوتے ہیں ۔ ہم نے اپنی شعوری زندگی میں قاضی حسین احمد صاحب کے بعد منورحسن اور اب سراج الحق کو امیربنتے دیکھا ہے۔ پارٹی کے سربراہ بدلنے سے جماعت اسلامی ختم نہیں ہوگئی بلکہ شاید مضبوط ہی ہوئی ہوگی ۔جماعت میں ایسا نظام بھی نہیں ہے کہ امارت باپ سے بیٹوں میں منتقل ہوجائے ۔
موروثی سیاست یا موروثی پارٹی کا سب سے بڑاالزام مسلم لیگ نون پر لگایا جاتا ہے ۔اس میں بہت ساری حقیقت بھی ہے کہ جب بھی نون لیگ کی طرف سے کسی کے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کاموقع آیا تو صرف ایک شاہد خاقان عباسی کو چھوڑ کر ہمیشہ قرعہ شریف خاندان کے چشم و چراغ کے نام ہی نکلا ہے۔اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ کیا کریں پارٹی کو ووٹ نوازشریف یا شریف خاندان کے نام کا ہی ملتا ہے ۔ہوسکتا ہے یہ درست ہو لیکن شریف خاندان کے علاوہ کسی کو پارٹی کا سربراہ بنانے یا اس کو باقاعدہ جمہوری پارٹی بنانے کی کوشش کب کی ہے کسی نے؟
ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں میں الیکشن کروانے کا باقاعدہ قانون موجو د ہے ۔ الیکشن کمیشن الیکشن نہ کروانے والی پارٹی کو ختم کرسکتا ہے لیکن ہم نے کتنی جماعتوں کو اپنے اندر انتخابات کرواتے دیکھا ہے۔ نون لیگ میں کب الیکشن ہواہے۔پیپلزپارٹی میں یہ عمل کب کسی نے دیکھا ہے اور ان دونوں جماعتوں کو موروثی کہنے والی جماعت پی ٹی آئی میں یہ عمل کب ہواتھا؟اگر کبھی خانہ پُر ی کیلئے سیاسی جماعتوں میں انتخابات ہوبھی جاتے ہیں تو جماعت کوئی بھی ہوآپ کو یہ جان کرحیرت نہیں ہونی چاہیے کہ جماعت کا سربراہ بلامقابلہ ہی جیت جائے گا۔
جمہوریت کی جدوجہد اور جمہوریت پسندوں کی اپنی جمہوریت کا حال آپ دیکھ رہے ہیں ۔ان جمہورپسندوں کو اس ملک میں جمہوریت کی فکر ہے جن کے اپنے رویوں اورپارٹیوں میں جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ جو بولے وہ پارٹی سے فارغ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button