ColumnRoshan Lal

مفتاح اسمٰعیل کے خیالات ۔۔ مفتاح اسماعیل

روشن لعل

 

مفتاح اسمٰعیل وہ معروف شخص ہیں جو پارلیمان کے کسی ایوان کا رکن منتخب ہوئے بغیر دو مرتبہ ملک کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔یہاں غیر منتخب لوگوں کی وزیر بننے کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہو سکتی ہیں مگر مفتاح اسمٰعیل کا فرق یہ ہے کہ دوسروں کے برعکس انہیں جمہوری حکومتوں میں آئینی طور پر وزیر بنایا گیا۔ مفتاح کے متعلق یہ بات بلاشبہ کہی جاسکتی ہے کہ ان کا شمار ملک کے ان انتہائی محدود لوگوں میں ہوتا ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والوں سے کم ہی توقع رکھی جاتی ہے کہ انہیں عام لوگوں کی زندگیوں کی تلخیوں کا احساس ہوگا یا وہ اپنی زندگی میں کسی کیلئے کوئی سختی برداشت کرسکیںگے۔کسی دوسرے کیلئے سختی برداشت نہ کرسکنے جیسا خیال مفتاح نے اس وقت خام ثابت کر دیا تھا جب عمران خان کے دور حکومت میں وہ نیب کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے ۔ عمران خان کے دور حکومت میں مفتاح اسمٰعیل کو نیب نے اس کیس میں معاون ملزم کے طور پرحراست میں لیا جس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پہلے سے گرفتار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مفتاح اسمٰعیل کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب نیب کے تفتیش کاروں کو شاہد خاقان عباسی کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل سکا تھا۔ مفتاح کی گرفتاری اس خیال کے تحت کی گئی تھی کہ سیٹھ فیملی سے تعلق رکھنے والا یہ شخص نیب ریمانڈ کے تحت جیل میں بند ہونے کی بجائے آرام سے شاہد خاقان عباسی کے خلاف گواہ بننے کیلئے تیار ہو جائے گا۔ مفتاح اسمٰعیل نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف کسی کا
مہرہ بننے کی بجائے جیل میں بند رہنے کو ترجیح دی۔ عمران حکومت کے دوران نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور چھ ماہ جیل میں گزارنے کے بعد عدالت نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل کی ضمانت منظور کی تھی کہ ان پر بغیر کسی ٹھوس بنیاد اور ثبوت کے الزامات عائد کیے گئے ۔ ایک سیٹھ خاندان کا فرزند ارجمند ہونے کے باوجود مفتاح اسمٰعیل جب عمران حکومت کے دوران جیل کی سختیاں برداشت کرچکے تو اس کے بعد بھی ان سے متعلق یہ سوچا گیا تھا کہ انہیں زیادہ سے زیادہ جمہوریت پسند سیاست دان سمجھا جاسکتا ہے اور جہاں تک معاشی رجحانات کا تعلق ہے تو وہ نیو لبرل معاشی پالیسی کے داعی ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتے ۔
نیو لبرل معاشی پالیسی کے متعلق یہاں مختصراً یہ بتانا ضروری ہے کہ اس پالیسی کے داعی پرائیویٹ سیکٹر کو اس حد تک آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس سیکٹر کے معاملات پر حکومت کا کوئی کنٹرول اور عمل دخل نہ رہے ۔ اس کے علاوہ یہ سیاست کو اس روش پر چلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں کہ ریاستیں عوامی بہبود کے پروگراموں سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائیں۔ مفتاح اسمٰعیل کے خاندانی وکاروباری پس منظر اور مسلم لیگ نون جیسی سیاسی جماعت سے وابستگی کو دیکھ کر یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے وکیل اور حمایتی ہو ں گے مگر ان کے تحریر کردہ ایک آرٹیکل کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت اورطبقے کے لوگوں سے کافی حد تک مختلف قسم کے خیالات رکھنے والے انسان ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل کے جس آرٹیکل کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس کا عنوان انہوں نے The ‘One Per Cent Republic’(ایک فیصد کی جمہوری سلطنت)۔ ان کے مذکورہ آرٹیکل کو یہاں ہو بہو بیان نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ضرور بتایا جاسکتا ہے کہ اس کا لب لباب کیا ہے۔ مفتاح نے اپنے آرٹیکل میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ریاست کے ہر شعبے کے کار مختار اس اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بنے ہوئے ہیں جس کا ملک کی مجبوعی آبادی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ انہوں نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں ناقابل تردید مثالیں پیش کیں ۔ ایسی ہی ایک مثال میں انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت کا تعلق لاہور کے ایچی سن کالج سے ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ مثال بھی پیش کی کہ یہاں ہر برس لاکھوں کی تعداد میں طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں مگر نمایاں مقام اور عہدوں تک وہ چند ہزار ہی پہنچتے ہیں جن کا تعلق ملک کے ایک دو مخصوص کیڈٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دولت کا ارتکاز تو پوری دنیا میں ہوتا مگر ہمارے ہاں یہ معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ دولت کا ارتکاز یہاں کئی دہائیوں سے چند مخصوص خاندانوں تک محدودہے۔مفتاح کے مطابق کامیاب معیشت کی یہ نشانیاں ہیں کہ اس میں ایسے نئے کاروباری لوگ اور ادارے ترقی کرتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس نئی صنعتوں کی بنیادیں رکھتے ہیں۔پاکستان میں ایسے نئے ادارے ناپید ہیں کیونکہ یہاںدولت، طاقت اور مواقع ، خاص اہتمام کے ساتھ صرف اس اشرفیہ کیلئے مخصوص کر دیئے گئے ہیں جس کے خاندانی پس منظر اور ہیت میں کئی دہائیوں سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔امریکہ کے بل گیٹس، مارک زکر برگ اور جیف بیزز جیسے لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے خاندانی وراثت میں حاصل ہونے والی دولت کے بل پر معاشی ترقی کی ہو۔ ماضی کے راک فیلر اور کارنیجزجیسے دولت مند خاندانوں کے افراد میں سے اب کوئی بھی ایسا نہیں جو کاروبار کی دنیا میں چھایا ہوا ہو۔ اسی طرح امریکہ میں بل کلنٹن، رونالڈ ریگن اور باراک اوبامہ کی طرح کے ایسے لوگ ملک کے صدور بنے جن کے خاندان کسی قسم کے سیاسی پس منظر کے حامل نہیں تھے۔ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ جس طرح صرف نومبر کے مہینے میں پیدائش کو کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کی شرط بنا کر اس کھیل میں کامیابی کی امید نہیں رکھی جاسکتی اسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ دولت اور طاقت چند خاندانوں کے ہاتھوں میں رہنے کے باوجود ملک ترقی کر پائے۔
مفتاح اسمٰعیل نے اپنے آرٹیکل میں جن خیالات کا اظہار کیا ان کی بنا پر انہیں سوشلسٹ نہیں توکم از کم سوشل ڈیموکریٹ ضرور تصور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو مفتاح اسمٰعیل جیسے خیالات رکھتے ہیں مگر ایسے سیاستدان ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتے جنہوں نے سابق وزیر خزانہ کی طرح پنسلوینیا یونیورسٹی سے پبلک فنانس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہو اور ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی دقیانوسی کاروباری روایتوں کو توڑنے پر اصرار کر تے ہوں۔
مفتاح اسمٰعیل نے اپنی تحریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ان کی بنا پر وہ یقیناً خراج تحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں ۔ مفتاح کے خیالات کی بنا پر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مختلف حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے کیا کبھی اپنے خیالات کے مطابق کوئی عمل کرنے کی کوشش کی اور اگر کبھی ایسی کوئی کوشش کی تو انہیں کس قسم کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ویسے مفتاح سے ایک سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جس مسلم لیگ نون کا وہ حصہ ہیں وہاں خاص سوچ رکھنے والے ٹیکنو کریٹ اسحٰق ڈار کی موجودگی میں کیا ان کے خیالات کی پذیرائی کی کوئی گنجائش موجود ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button