Ali HassanColumn

امید کی کرن کے سوا کچھ نہیں یہاں .. علی حسن

علی حسن

حکومت نے موٹر وے پر سفر کرنے والے تمام پارلیمنٹرینز کی گاڑیوں پر ٹول ٹیکس معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں منتخب اراکین اسمبلی ہوں یا سینیٹ، انہیں ان کی مالی حیثیت کے پیش نظر ضرورت ہی نہیں کہ انہیں ٹول ٹیکس بھی معاف کیا جائے۔ اکثر ہائی ویز پر ایف ڈبلو او ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن ان سڑکوں پر سفر کرنے والی ایمبولینس یا دیگر عوام کی سہولت کی گاڑیوں مثلاً میت گاڑیوںپر بھی ٹول ٹیکس معاف نہیں کیاجاتا۔ اراکین کیلئے ایف ڈبلو او کو بھی ٹول ٹیکس وصول نہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ کیا اراکین کو یہ ضرورت ہے کہ با ضابطہ تنخواہ، ہر قسم کی سہولتوں، اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے ہوائی جہاز میں مفت سفر کر نے کیلئے ٹکٹ فراہم کئے جاتے ہیں۔ اراکین کو ہر قسم کی سہولت، مراعات، وغیرہ ، دوران اجلاس یا ایوان قومی یاسمبلی یا سینیٹ میں موجود کینٹین میں ملک بھر سے سستا ترین کھانا کی سہولت حاصل ہیں۔ پھر انہیں ضرورت ہی کیا ہے کہ اسمبلی کی رکنیت کا کارڈ تو انہیں ہر سہولت کا حقدار قرار دیتا ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس پر دیے گئے ریلیف کو ختم کر کے نئی ترمیم منظور کرلی گئی ہے جس کے تحت ماہانہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کمانے والے کو اضافی رقم پر ڈھائی فیصد کی شرح سے ٹیکس دینا ہوگا۔
یہ خبریں ایسے وقت میں آئی ہیں جب ملک کے دولت مند حکمران دنیا بھر سے پاکستان کی مدد کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں ہر فورم پر مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپیلیں کی ہیں۔ سیلاب اور بارشوں کے اثرات سے پاکستان کے عوام جس بری طرح متاثر ہوئے اس کا تقاضہ ہے کہ حکومت عوام کی با مقصد بحالی کا کام شروع کرائے۔ حکومت میں شامل جو بھی سیاسی رہنماء ہیں، انہوں نے اپنی جیب سے ابھی تک مونگ پھلی کے دانہ کے برابر امداد نہیں دی ۔کیا ان کے اثاثوں میں کوئی کمی ہے؟ پاکستان میں ہر رکن قومی اسمبلی کو بنیادی تنخواہ کے علاوہ 12 ہزار سات روپے کا اعزازیہ، الاؤنس کے پانچ ہزار، آفس کی دیکھ بھال الاؤنس کے آٹھ ہزار روپے، ٹیلی فون الاؤنس کے دس ہزار روپے، ایڈ ہاک ریلیف کے 15 ہزار روپے، تین لاکھ روپے کے سفری واؤچرز یا 92 ہزار روپے کیش، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کیلئے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس کے دو ہزار، ڈیلی الاؤنس کے چار ہزار آٹھ سو، اور ہاؤسنگ الاؤنس کے دو ہزار۔ ذرا جمع تو کیجیے کتنی رقم بنتی ہے؟کیا ان لوگوں کو مزید سہولتیں درکار ہیں؟ اس کے علاوہ ٹول
ٹیکس کی بھی معافی؟ حکومت کی جانب سے یہ وضاحت تو تاخیر سے آئی ہے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے دورہ امریکہ پر سرکاری خزانے سے کوئی خرچہ نہیں کیا بلکہ اپنے اور وفد میں شامل وزراء کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب بھی شہباز شریف نے تنخواہ سمیت کوئی سرکاری مراعات نہیں لیتے تھے ۔ شہباز شریف نے سرکاری دوروں کے اخراجات بھی 10 سال خود ادا کیے تھے۔ یہ خبریں سوشل میڈیا پر عام ہیںکہ پاکستان سے ایک بہت بڑا وفد اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے نام پر امریکہ کے دورے پر ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ وضاحت آ گئی ہے ۔ عام تاثر تو یہ ہی تھا کہ امریکہ میں پر تعیش ہوٹلوں میں قیام کی خبریں، مہنگے کرایہ کی گاڑیوں میں سفر، کھانے پینے پر آنے والے مہنگے اخراجات حکومت پاکستان برداشت کر رہی ہے۔ جب تک وضاحت کی گئی، اس وقت تک تو اقوام متحدہ کی راہ داریوں میں تو یہ بات ضرور گشت کر رہی ہو گی کہ پاکستان جیسا ملک جو قرضوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے اور جس ملک کے عوام کرونا جیسی وبا کے بعد سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں، اس ملک کی حکومت کے لوگ امریکہ کے مہنگے ہوٹلوں میں قیام پذیر ہیں۔ بھلا کس کس کو وضاحت کی جائے گی اور آگاہ کیا جائے گا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے تمام اخراجات خود برداشت کئے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جو پاکستان کے سیالاب زدگان کی مدد کرنے کا سوچتے بھی ہوں گے، وہ یہ بھی تو سوچ رہے ہیں گے کہ یہ لوگ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کر کے اپنے عوام کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ ویسے بھی پاکستان کے بارے میں آئی
ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک یا سعودی عرب تک میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان کے حکمران ہوں یا افسران، بذات خود شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جب کہ ان کے عوام ننگے بھوکوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انکے پاس اسی طرح زندگی گزارنے کی مجبوری ہے اور کوئی چوائس نہیں ہے۔ بیرون ملک دورے کرنیوالے پاکستانی وفود کے اراکین نہ جانے کیوں سادگی اختیار کرنے سے اجتناب برتتے ہیں۔
اقوام متحدہ (یو این) نے اپنے پالیسی نوٹ میں کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ممالک کو پاکستان کیلئے قرضے ری شیڈول کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے ، اس لیے مالی بحران کے اضافے پر پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے اپنے قرضوں میں چھوٹ کیلئے بات چیت کرنی چاہیے۔اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام اسی ہفتے پاکستان کی حکومت کے ساتھ قرضوں کی ری شیڈولنگ کی اپنی تیار کردہ یاداشت مخصوص حلقوں میں تقسیم کرے گا۔ پالیسی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک (پاکستان) کے قرض دہندگان کو قرضوں میں ریلیف دینے پر غور کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے پالیسی ساز سیلاب متاثرین کیلئے مالی امداد کو ترجیح دے سکیں۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی جانب سے تیار کردہ میمورینڈم میں مزید قرضوں کی ری شیڈولنگ یا تبادلے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں، جبکہ قرض دہندگان سے ادائیگیوں کو موخر کرنے کا بھی پروگرام دیا گیا۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام میں کہا گیا ہے کہ اس کے بدلے میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی سے مزید بچنے کے لیے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری پر رضامند ہے۔ وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا ہے کہ حکومت امداد کی رقم اور سامان کا باقاعدہ آڈٹ کرانے کو تیار ہے۔ امداد کے سامان کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں خدشات ہیں کہ یہ سامان صوبہ سندھ میں تو سربراقتدار پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تقسیم کیلئے دے دیا گیا ہے۔ شاعر جمیل مظہر نے کیا خوب کہا ہے ۔
امید کی کرن کے سوا کچھ نہیں یہاں
اس گھر میں روشنی کا یہ ہی انتظام ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button