ColumnImran Riaz

عمران خان کا فیصلہ کن معرکہ کب؟ .. عمران ریاض

عمران ریاض

بار بار اعلانات کے باوجود عمران خان آخری معرکہ کی تاریخ نہیں دے پارہے، کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اگر اس تاریخ پر کچھ نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے ۔دراصل عمران خان نے بیک وقت کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ایک طرف سیاسی مخالفین کے خلاف محاذ گرم ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر لے لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومتی اتحاد اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مجبوراً ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا۔ عمران خان فوجی قیادت اور سیاسی قیادت کو بیک وقت دبائو میں لانا چاہتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ ان کے دبائو میں نہ آئی اور عمران خان دوسری طرف پرویز خٹک، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور فوادچودھری کو بھی پرانے تعلقات کی بحالی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھیجتے رہے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہمیشہ دو ٹوک موقف اختیار کیاگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی ہوچکی ہے اور صرف اپنے آئینی کردار تک محدود ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لانے کی کوشش جاری رکھی اور آخر کار صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی درپردہ کاوشیں رنگ لائیں جس کے نتیجے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی براہ راست ملاقات ہو ہی گئی جس میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر فوری الیکشن کی بات کی تو انہیں واضع کیا گیا کہ اس سلسلے میں حکومت سے بات چیت کر کے اسے قائل کریں ہم اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔اس جواب سے عمران خان سخت دبائو کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی خود کوئی بڑی سیاسی حکمت عملی نہیں بنائی نہیں بلکہ یہ کام ہمیشہ دوسروں کے زمے ہوتا تھا۔ چونکہ اب عمران خان کو کہیں سے کوئی یقین دہانی نہیں مل رہی اور نہ ہی کوئی انکا دبائو لے رہا ہے اس لیے عمران خان سخت مایوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ،اوپر سے حکومت نے اسحاق ڈار کو واپس لا کر وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اوریہ عندیہ ہے کہ حکومت اپنی ٹرم پوری کرنے جارہی ہے اور اس معاملے پر نواز شریف اور شہباز شریف میں ابہام بھی ختم ہو گیا ہے۔
اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان خود کو سیاست کی بند گلی میں لے گئے ہیں، جہاں سے انہیں واپس کا راستہ نہیں مل رہا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی پر ان کی پارٹی میں بھی واضح تقسیم ہے۔ پس مجھے خطرہ ہے انتہائی مایوسی کے اس عالم میں عمران خان کوئی ایسا اقدام نہ اٹھادیں کہ جس کے نتیجے میں جمہوری نظام ہی ڈی ریل ہو جائے۔ پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کودنیا بھر میں محسوس کیا گیا اور آئی ایم ایف سمیت دنیا بھر کے مالیتی ادارے نہ صرف پاکستان کا قرض موخر کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں بلکہ بہت سارے ممالک پاکستان کی امداد کے لیے بھی تیار ہیں اور یہ رقم ڈالرز میں ملے گی جس کے پاکستانی معیشت پر اچھے اثرات آئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button