ColumnNasir Naqvi

مسئلہ چودھراہٹ کا؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

کبھی چودھراہٹ کا مسئلہ صرف اور صرف دیہی علاقوں میں دکھائی دیتا تھا۔ وہاں پڑھے لکھوں کی تعداد کم ہو تی بلکہ ایک چودھری باقی سب ۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی خاندان ترقی اور خوشحالی کی راہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائے تو صرف چودھری صاحب ہی نہیں ہر کوئی اس پر نظر رکھتا تھا تاہم خاندانی جدی پشتی لوگ ہر پابندی سے آزاد ہی نہیں ، من مرضی کے مالک ہوا کرتے تھے ۔ بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا معاملہ بھی چودھریوں کی پنچائیت میں حل کیا جاتا تھا۔انصاف کا معیار بھی صرف چودھریوں کی پنچائیت ہوا کرتی تھی لیکن یہ حقیقت ہے چند چودھریوں کے علاوہ سب کے سب اپنی نمبرداری اور خاندانی طاقت کے بل بوتے پر اپنا فیصلہ نہ صرف سناتے بلکہ اس پر سختی سے عمل در آمد کراتے تھے، حکم عدولی کی کوئی مجال نہیں کر سکتا تھا اور جس نے جرأت کی اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا، علاقے کے چودھری زمیندار اور سردار کی حیثیت زمینی خدا سے کم کسی طرح بھی نہ ہو تی تھی، ایسے زمانے میں ان کے بچے ایچی سن کالج جیسی عظیم اور معروف درسگاہوں میں پڑھتے تھے لیکن دیہی علاقوں میں سرکاری سکولوں کی موجودگی میں بھی غریبوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا تھا،تاکہ کسی میں زمیندار وں اور چودھریوں کی ہم سری کی خواہش پیدا نہ ہوسکے، ان مقامی سکولوں میں اساتذہ اور دیگر عملے کی تعیناتی بھی ہوتی تھی لیکن سٹاف کے تمام ارکان ماتحت علاقائی چودھری کے ہوا کرتے تھے، اس لیے کہ ان پورے عملے کی روٹی پانی کی ذمہ داری بھی وہی ادا کرتا تھا سکولوں میں غریبوں کے بچوں کو داخلے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ اساتذہ بھی یہ خدمت حویلی کے بچے اور بچیوں کو پڑھا کر اپنی ڈیوٹی پوری کر لیتے تھے ۔اب حالات بدل چکے ہیں مکمل نہیں لیکن تھوڑی بہت بہتری آچکی ہے۔ میں نے یہ افسوسناک منظر لاہور کے نزدیک وارادھارام میں سردار عارف نکئی کے علاقے میں دیکھا تھا، اس وقت ان کے خاندان نے سیاست سیاست کھیلنا شروع کر دی تھی لیکن وہ وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بنے تھے ۔مجھے ایک سرکاری ٹیم کے ساتھ ان کے علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا ، ٹیم اور میں ایک پسنجر ٹرین کے ذریعے وہاں پہنچے ، ریلوے سٹیشن پر دس بارہ افراد اجنبی سے نظر آئے تو اسٹیشن ماسٹر نے دریافت کیا کہ آپ لوگ کون ہیں ؟ اور کہاں کے ارادے ہیں ؟
ہم نے سردار رعارف نکئی کی حویلی کا راستہ پوچھا؟
کہنے لگے کس سلسلے میں آپ لوگ وارد ہوئے ہیں ،سردار صاحب کو اطلاع ہے؟
ہمارے ذمہ دار افسر نے کہا حویلی کاراستہ بتائیں ہم کھیتوں سے پیدل چل کر وہاں پہنچ جائیں گے۔
اسٹیشن ماسٹر صاحب بولے کیوں میرے لیے نیا سیاپا بنانا ہے، اجازت کے بغیر آپ گائوں یاحویلی میں نہیں جاسکتے، حویلی تو وہ سامنے ہے لیکن پہلے سردار صاحب سے پوچھنا پڑے گا ۔
ایک ساتھی بولا ہم سرکاری لوگ ہیں، آپ راستہ بتائیں کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے نکل کر چلے جائیں گے۔
اسٹیشن ماسٹر نے مسکراتے ہوئے کہا آپ لوگ لاہوری ہیں لیکن یہ لاہور نہیں ، یہاں چالاکی، کی تو مارے جائیں گے ، اندھیرا ہو چکا ہے، ابھی سردار صاحب کامنشی میرا کھانا لے کر آئے گا، اس سے پیغام بھیجیں گے اجازت ملی تو آپ چلے جائیں ورنہ واپسی کی فکر کریں ۔
میں نے کہا، جانا تو پیدل ہی ہے کھیتوں میں جانے میں کیا حرج ہے ؟
بولا، کرنٹ چھوڑا ہوا ہے ،جانور فصلیں خراب کر دیتےہیں۔
میں نے کہا ، جناب اس میں میرے جیسا اجنبی بھی جاسکتا ہے؟
بولے، ضرور جائیں کرنٹ انسان یا جانور کو نہیں دیکھتا مارے جائیں گے۔
میں نے حیرانگی سے پوچھا پھر ؟
سٹیشن ماسٹر صاحب بولے ہماری ذمہ داری ہے، ہم ان کا کھاتے ہیں، پھر بھی کئی لوگ اپنی چالاکی میں مارے جاتے ہیں یہ سردار وں کا علاقہ ہے، کوئی چودھری ہمیں کوئی نہیں پوچھتا ، پولیس بھی اجازت کے بغیر ادھر نہیں آتی۔
اسی گفتگو اور بحث ومباحثے میں خاصا وقت گزر گیا اور منشی صاحب رات کا کھانا لے کر تشریف لے آئے سٹیشن ماسٹر صاحب نے ہمارا تعارف کرایا کہ یہ سرکاری لوگ سردار صاحب کے مہمان ہیں ۔
منشی نے جواب دیا سردار صاحب لاہور گئے ہوئے ہیں میں پتا کرتا ہوں آپ لوگ سٹیشن پر ہی انتظار کریں ۔
خاصی پریشانی کاسامنا تھا لیکن رات کے اندھیرے میں دوسری آپشن نہیں تھی، سٹیشن ماسٹر صاحب نے ہمیں روایتی انداز میں کھانے کی دعوت دی اور ہمارے بسم اللہ کہنے پر خو د مرغ مسلم کھانا شروع کردیا ، گرمیوں کی رات تھی لہٰذا ہم سب نے منشی کے انتظار اور نئے حکم کی خواہش پر پلیٹ فارم پر مٹر گشت شروع کر دیا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک ملازم آیا اور ہم سب کو قافلے کی صورت میں چھوٹے سردار صاحب کے پاس لے گیا، انہوں نے چھوٹی حویلی ،مہمان خانہ کھلوا کر ہمیں شرف مہمانداری بخشا لیکن صبح ناشتے کے بعد منشی صاحب آئے اور ہمیں سردار عارف نکئی کے پاس لے گئے ۔ سلام دعا کے بعد انتہائی گرجدار آواز میں بولے ۔ آپ لوگوں نے میری بے عزتی کی ، کیا سزا ہونی چاہیے ؟ گھبرا کر جواب دیا جناب ایسی کوئی بات نہیں ، ہوا کیا؟کہنے لگے ، مہمان میرے تھے آپ لوگوں کی جرأت کیسے ہوئی کہ آپ میرے چھوٹے بھائی کی طرف چلے گئے ؟ہم نے یک زبان جواب دیا ہم تو اجنبی ہیں، منشی صاحب کا فیصلہ تھا ہمیں کچھ معلوم نہیں ؟انہوں نے ایک روایتی گالی کے ساتھ منشی کو پکارا اور اپنی جوتی اتار کر حملہ آور ہو گئے ، اس نے بڑی منت سماجت سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن سردار صاحب کی ایک ہی تکرار تھی کہ اگر میں گھر پر نہیں تھا تو روٹی پانی ساتھ لے گیا تھا جو تم نے میرے مہمان دوسرے گھر پہنچا دیئے۔ہمیں چھٹی ملی واپسی پر دیکھا ، کنو کے خوبصورت باغوں میں بڑابڑا کنو زمین پر پڑا ہے میں نے کنو اٹھانے کے لیے کہا تو ملازم بولا نہیں صاحب جی یہ کام نہیں کرنا ، ایک کنو پر نقد جرمانے کے ساتھ دس جوتے بھی پڑتے ہیں ۔
زمانہ بدل گیا لیکن چودھراہٹ کی خواہش ابھی بھی آدم زاد وں میں کم نہیں ، پڑھے لکھے بھی اسی عادت کے غلام بن چکے ہیں۔ مسند اقتدار پر بیٹھنے والا پوری طاقت سے چودھراہٹ کا خواہشمند ہے۔ گجرات کے چودھری اس وقت پنجاب کا تخت سنبھالے ہوئے ہیں لیکن عمران خان ان پر سوار ہیں اس مرتبہ وہ پنجاب کی طاقت اور خزانے کی مدد سے وفاق پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا بیانیہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ٹھس ہو گیا ، سپہ سالار کی تقرری بھی متنازعہ نہ بن سکی سب تدبیریں الٹی ہو گئیں پھر بھی ضدی عمران خان اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کیلئے ستمبر کے آخری یا اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد چڑھائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ انہیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی توڑنے کا مرحلہ آیا تو چودھری پرویز الٰہی مصلحت پسندی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ چودھراہٹ کا روایتی انداز اب سیاست میں آچکا ہے، عمران خان پر دہشت گردی کی دفعہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دی لیکن پنجاب کے عمرانی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے اور اپنے قائد عمران خان کی ڈھارس باندھنے کیلئے لاہور کے علاقے گرین ٹائو ن میں رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب پر مذہبی دہشت گردی کاپرچہ جامع مسجد عائشہ صدیقہ کے مولانا ارشاد الرحمان سے کروا دیا ہے۔اسے چودھراہٹ کی زبان میں کراس پرچہ کہتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے، اس وقت ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت کی موجودگی میں بھی سب کے سب سیاسی چودھری بننے کی فکر میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہیں ، ملک معاشی ، سیاسی اور سیلابی بحران میں مبتلا ہے لیکن سیاست دان کسی بھی مسئلے پر مشاورت اور مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی سوچ صرف اس لیے نہیں رکھتے کہ انہیں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بجائے درپیش ہے مسئلہ چودھراہٹ کا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button