ColumnImtiaz Aasi

پیسوں کی سیاست کب ختم ہو گی؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ملکی سیاست جوڑ توڑ اورپیسوں سے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے سے عبارت ہے۔ زکوۃ کے پیسوں سے اراکین کی خریداری اور ارکان اسمبلی کو سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کی بندربانٹ ہماری سیاست کا المناک باب ہے۔ 1988 سے 1997 کے درمیان بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور میں ہارس ٹریڈنگ زوروں پر تھی ایک دوسرے کی اکثریت ختم کرنے کیلئے پیسے کا لالچ اور مختلف ترغیبات دے کر ارکان کی حمایت حاصل کی گئی۔ چھانگا مانگا اور مری کے ریسٹ ہاوسز اور وفاقی دارالحکومت کے ہوٹلوں میں ارکان اسمبلی کو ٹھہرایا گیا۔غلام اسحاق خان کے دور میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے کیلئے ارکان اسمبلی کو توڑنے کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت ختم نہ ہو سکی بعدازاں صدر نے اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا۔گویا حکومت ختم کرنے کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا جاتاہے ۔2018 کے انتخابات میں بلوچستان میں نئی پارٹی کے قیام کے بعد اب جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی پر مشتمل نئی پارٹی کے قیام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کا مقصد تحریک انصاف کا کسی طرح زور توڑنا ہے۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور عمران خان کے سابق دست راست جہانگیر ترین اور پیپلز پارٹی دور کے پنجاب کے گورنر مخدوم احمد محمود کے درمیان عرصے سے تعلقات میں سردمہر ی تھی اب وہ بھی یکجا ہو گئے اور ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔بلوچستان حکومت سے پی ٹی آئی کے ارکان کو باہر کرکے جے یو آئی کے لوگوں کو حکومت میں شامل کرنے کی خبریں ہیںجس کیلئے جے یو آئی کے امیرنے پی ٹی آئی کو حکومت سے نکالنے کی شرط رکھی ہے ۔پنجاب حکومت میں تبدیلی لانے کیلئے پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری خاصے سرگرم ہیں۔ تعجب ہے کہ سندھ کے سیلابی علاقوں میں جانے کیلئے انہیں صحت اجازت نہیں دیتی لیکن پنجاب میں تبدیلی لانے کیلئے وہ صحت مند ہیں۔دراصل نئی پارٹیوں کے قیام کا مقصد پی ٹی آئی کی کمر توڑنا مقصود ہے ورنہ نئی نئی پارٹیوں کے قیام کابظاہر کوئی مقصد نہیں۔
اس سے پہلے اگر ہم ستر کی دہائی کی طرف لوٹیں تو بعض حلقوں کی آشیر باد سے پیر پگاڑا نے بھٹو حکومت کے خلاف فاروڈ بلاک بنانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ہم جنوبی پنجاب کے اراکین کی نئی پارٹی کی بات کر رہے تھے ۔ درحقیقت جنوبی پنجاب کے سرداروں کی آپس میں قریبی رشتہ داریاں ہیں جس کافائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نئی پارٹی کا قیام ان کیلئے کوئی مشکل نہیں،اس کے باوجود ملکی سیاست میں کوئی سیاست دان ایسا نہیں جو اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ملک وقوم کی ترقی کیلئے کردار ادا کرسکے۔ دراصل سیاست میں روپیہ پیسہ خرچ کرنے والوں نے ملک کو اس دہانے پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔وقت گذرنے کے ساتھ عوام اب خاصے باشعور ہو چکے ہیں انہیں کرپٹ سیاست دانوں بارے بیدار کرنے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ستم تو یہ ہے سیاست دان اپنی تجوریاں بھرنے کے علاوہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کے دور میں ہماری معیشت درست سمت میں جا رہی تھی شاید سیاست دانوں کو ملک کے معاشی حالات سدھارنے کی بجائے اپنے معاشی حالات مضبوط کرنے کی فکر لاحق تھی اسی لیے عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ سوچنے کی بات ہے عمران خان سیلاب زدگان کیلئے ٹیلی تھون کرے تو اوورسیز پاکستانی اربوں روپے بھیج دیتے ہیں اس کے برعکس ہمارے وزیرا عظم ملکوںملکوں کا دورہ کرکے مالی امداد کی کوشش کے باوجود کچھ حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں؟حیرت ہے ایک طرف حکومت سیلاب زدگان کے امداد کیلئے سیاست دانوں کو ترغیب دیتی ہے تو دوسری طرف پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں۔ سوال ہے کیا اقتدار کسی ایک خاندان یا پارٹی کی میراث ہے؟اب اگر آصف علی زرداری پنجاب حکومت کو توڑنے کیلئے اراکین کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں تو کوئی رکن اسمبلی بغیر کسی لالچ کے چودھری پرویز الٰہی کی حمایت ترک کر دے گا۔بہت کم سیاست دان ایسے ہیں جو اپنے اصولوں پر قائم رہنے والے ہیں ورنہ تو پیسوں کے بغیر کوئی کسی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
ہماری سیاست میں پیسوں کا گند ڈالنے والوں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔آخر کب تک ہم کاسہ گدائی لئے پھرتے رہیں گے۔جس ملک میں پچاس کروڑ روپے تک کرپشن کو کرپشن نہ سمجھا جائے اس ملک کے معاشی حالات کیسے سدھر سکتے ہیں۔پنجاب کو ذاتی ایمپائر سمجھنے والے کبھی سوچ نہیں سکتے تھے کہ پنجاب ان کے ہاتھوں سے جاتا رہے گا۔آج کی نوجوان نسل کو خان نے یہی تو سبق دیا ہے ملک وقوم کو لوٹنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائو یہ اسی کا نتیجہ ہے پنجاب جو کبھی نون لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا مسلم لیگ قاف اور تحریک انصاف کی حکمرانی ہے۔نوجوان نسل میں بیداری کی جو لہر خان نے پیدا کی ہے اسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔نہ جانے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کیلئے نہ جانے اربوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔حکومت تبدیلی سے ملک اور عوام کواب تک کیا حاصل ہوا ہے؟ضروریات زندگی عوام کی قوت خرید سے باہر ہیںروزگار نام کی کوئی شے نہیں۔ملک میں جرائم کی رفتار میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے حکومت کو ملک اور عوام کی فکر نہیں بلکہ انہیں اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے ۔دیکھتے ہیں عمران خان اب آخری کال کب دیتے ہیں۔حکومت کو تحریک انصاف کے احتجاج کو روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، وہ ملک کو اغیار کی چنگل سے نجات دلانے کی بات کرتا ہے تو اس میں کون سی برائی ہے ۔عمران خان کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف اسی طرح لگے رہے تو مستقبل میں روپے پیسے کی سیاست کے خاتمے کی امید کی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button