ColumnNasir Sherazi

نانی اماں کی تعزیت قبول فرمائیں .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

ایک چراغ اور بجھا، چھیانوے سالہ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم ستر سال اقتدار میں رہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں، جس کا مجھے قدرے افسوس ہے، افسوس کا لفظ تو میں نے دوستوںکے ڈر سے لکھ دیا ہے، وہ ہر وقت کہتے رہتے ہیں دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ، سجنا وی مرجانا۔ حقیقتاً کوئی افسوس نہیں ہے، وہ کونسا میرے لیے دس مربعے زمین یا بکنگھم پیلس میں کوئی انیکسی چھوڑ گئی ہیں، وقت بدل چکا ہے، اب کوئی کسی کے لیے دس مربعے زمین چھوڑ کر مرے توجب بھی اس کے مرنے کا افسوس کم اور خوشی زیادہ منائی جاتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے بہت کچھ مل گیاہے۔ گویہ طرز عمل انسانوں کا نہیں حیوانوں کا ہے مگر کیا کریں ہر طرف یہی نظر آتا ہے، ملکہ برطانیہ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، شاید ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا یا پھر ان کے گھر کے قریب کوئی اچھا انگلش میڈیم سکول نہ ہوگا۔ اب گھر میں کوئی کتنا پڑھ سکتا ہے، سو تک مکمل گنتی یا اے بی سی، اس کے علاوہ دس تک کے پہاڑے یاد کرلیے ہوں گے۔ یہاں اگر ان کا گھرانا اسلام قبول کرلیتا تو پھر انہیں قرآنی قاعدہ بھی پڑھادیا جاتا، انہیں بعد از بلوغت آکسفورڈ یونیورسٹی بھی نہیں بھیجاگیا، شاید گھریلو تعلیم کے بعد وہ انٹری ٹیسٹ پاس کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھیں، دوسری وجہ لندن کا اس وقت کا ماحول بھی ہوسکتا ہے۔ کالے گوروں سے نفرت کرتے تھے، خدشہ ہوتا تھا کہ وہ گوری کو ورغلا کر بہلا پھسلاکر اپنا الو نہ سیدھا کرلیں۔
ملکہ الزبتھ گذشتہ برس بیوہ ہوئی تھیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ خاوند کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور اس کے پیچھے پیچھے دنیا سے
چلتی بنیں۔ سرکاری طور پر بتایاگیا ہےکہ ان کی ذاتی دولت پچاس کروڑ ڈالر ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ متمول نہیں تھیں، اس سے زیادہ ڈالر تو میرے ملک میں بلڈرز اور پراپرٹی ڈیلروں یا اعلیٰ درجے کے سرکاری ملازمین کے بینک اکائونٹس میں پڑے رُل رہے ہیں۔ میں تو اس نتیجے پرپہنچا ہوںکہ ان کے شوہر انہیں ہاتھ کھینچ کر گھر کا خرچہ دیتے تھے، جو شاید پچیس تیس پونڈ روزانہ سے زیادہ نہ ہوگا، اب ایک عورت گھر کے خرچے میں سے روز کچھ چوری چھپے بچا بھی لے تو وہ کیا بچاسکتی ہے۔ یقیناً اتنے ہی جتنے ان کے بینک اکائونٹ میں پڑے ہیں البتہ وہ اگر کچھ دولت چھوٹی چھوٹی پوٹلیوں میں باندھ کر محل میں اپنے کمرے کے کونے کھدروں یا اپنے بکسے میں چھپا گئی ہیں تو یہ کچھ عرصہ بعد منظر عام پر آئے گی۔ بتایاگیا ہے کہ ملکہ خاصی کنجوس واقعہ ہوئی تھیں، وہ دن دھار کے موقعے پر ہاتھ پر دستانہ چڑھاکر دو انگلیوں میں ایک پونڈ پکڑ کر اپنے خدمت گاروں کو دیا کرتی تھیں جسے وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاکر وصول کرتے تھے۔
ملکہ کے پاس کوئی ڈگری نہ تھی، نہ ہی وہ سلائی کڑھائی میں ماہر تھیں، باورچی خانے کے کاموں سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی گویا وہ ان
تمام اوصاف سے محروم تھیں جوخاوند کے دل میں گھر کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، لہٰذا جوانی کے چند برس چھوڑ کر خاوند سے ان کے تعلقات مثالی نہ تھے، وہ عام شکل و صورت اور چھوٹے قد کی ایک خاتون تھیں، اونچی ایڑھی پہن کر بھی وہ اپنے خاوند کے کندھے سے نیچی رہ جاتی تھیں، میری طرح ان کے خاوند کو دراز قد دبلی، ستوان ناک اورکتابی چہرے والی خواتین اچھی لگتی تھیں، ملکہ کی عمر محل میں رو رو کر ہی گذری، مجھے اس کاافسوس ہے۔
ملکہ جب بہو بیاہ کر لائیں تو اس نے حقیقی معنوں میں انہیں پڑھنے ڈال دیا، ملکہ، شہزادی ڈیانا سے بہت تنگ رہیں اور آخری عمر میں ڈیانا ان سے بات کرنے کی روادار نہ تھیں جبکہ ملکہ صاحبہ ڈیانا کو ڈائن سے بھی برا سمجھتی تھیں۔ ڈیانا کی حادثاتی موت پر انہوں نے چالیس غریب رشتہ داروں کو کھانا کھلایا اور ہر ایک کو نیا جوڑا دیاتاکہ وہ ملکہ کے لیے بہتر مستقبل کی دعاکریں۔ بادی النظر میں لگتا ہے ان کے کسی رشتہ دار کی کوئی دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ شہزادہ ہیری کی بیگم میگھن مارکل جب بیاہ کر محل میں آئیں تو انہوں نے ملکہ کو دن میں تارے دکھا دیئےایک وقت ایسا بھی آیا جب لگتا تھا میگھن ملکہ کو دیس نکالا دے دے گی لیکن ملکہ کا زندگی میں زیادہ عملی تجربہ کام آیا اس نے دونوں میاں بیوی کو محل چھوڑنے پر مجبورکردیا۔ اس معاملے میں بڑی ساس کی جیت ہوئی اور چھوٹی بہو کو شکست فاش ہوئی جس پر دنیا بھر میں سنیئر ساسوں نے وکٹری جشن منایا۔ ملکہ الزبتھ دم 21 اپریل 1926کو
لندن میں پیدا ہوئیں۔ 1947میں ان کی شادی شہزادہ فلپ سے ہوئی، ان کے چار بچے پیدا ہوئے، انہیں زیادہ بچے پسندتھے، وہ مزید بچے چاہتی تھیں لیکن ان کے خاوند نے سمجھایا کہ سونے کی چڑیا ہندوستان ہاتھ سے نکل چکا ہے، آنے والے دن خاندان کے لیے کڑکی کے دن ہوں گے لہٰذا ہمیں چار بچوں کے بعد اب مزید بچوں سے پرہیز کرنا چاہیے وہ نہ ہو کل کو غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر آخری تاج دار ہند بہادر شاہ ظفر کی طرح ٹوپیاں سی سی کر گذارا کرنا پڑے یا پھر اس کی اولاد کی طرح ہاتھ میں کشکول پکڑ کر بھیک مانگنا پڑے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ جب ملکہ کے سامنے یہ نقشہ پیش کیاگیا تو وہ فیملی پلاننگ کے لیے آمادہ ہوگئیں لیکن اس کے لیے وہ طریقہ اختیار نہیں کیاگیا جو آج کل مروجہ ہے بلکہ شہزادہ فلپ نے ان سے دوری اختیار کی۔ کہتے ہیں جب ملکہ کو اس چال کے پیچھے چھپے ہوئے عزائم کی خبر ہوئی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔کہتے ہیںاس وقت چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں، بلکہ پیچھے ڈنٹھل بھی باقی نہ بچا تھا۔ ملکہ الزبتھ کا تعلق بنیادی طور پر ایک بڑے قبضہ گروپ خاندان سے تھا جوپانچ دس مرلے کے پلاٹوں، دکانوں یا بیوائوں کے گھروں پر قبضہ نہیں کرتا تھا بلکہ وہ خوشحال ملکوں، کمزور قوموں پر قبضے کرتا تھا، میرے اجداد کے ملک ہندوستان پر انہوںنے قبضہ کیا۔ انہوں نے 1857میں تجارت کے بہانے یہاں انٹری لی پھر وسائل پر قبضہ کرتے کرتے پورے ملک پر قابض ہوگئے اور 1947 تک ہمارا خون چوستے رہے۔ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد ان سے ہندوستان کا قبضہ چھڑایاگیا، ان کے خاندان نے ہندوستان کے علاوہ سری لنکا، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ پر بھی قبضہ کیا جن میں سے بیشتر قبضے ابھی تک نہیں چھڑائے جاسکے، وہ جہاں جہاں گئے، قوموں کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے لیے کرکٹ کا کھیل ساتھ لے گئے تاکہ اس ملک کے نوجوان پڑھائی لکھائی، محنت و مشقت چھوڑ کراس کھیل کواپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں اور اپنے ملک کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہ کریں۔ دنیا کے کئی ملک اس جال میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ جنہوں نے دنیا میں ترقی کی ان ملکوں نے کرکٹ کو اپنے ملک میں نہیں گھسنے دیا۔ ان ہوش مند ملکوں میں امریکہ، چین، جرمنی، فرانس، کوریا اور کئی دیگر ملک شامل ہیں جبکہ کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کی یوتھ کئی کئی روز تک ہزاروں کی تعداد میں سٹیڈیم میں بیٹھ کر ان بائیس کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھتی ہے جن کے پانچ دن کے کھیل کے بعد بتادیاجاتا ہے کہ کھیل کا فیصلہ نہیں ہوسکا، کئی ارب روپئے ان کی جیبوں سے نکل کر عالمی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں جبکہ ہمارے گھر کے بدھو اپناروپیہ اور قیمتی وقت لٹاکر کہتے نظر آتے ہیں بڑا مزہ آیا۔ سب ٹھیک تھا مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا، کرکٹ نہ کھیلنے والے عالمی طاقت بن گئے، ہم جو کبھی عالمی طاقت تھے، آج دانہ گندم کے لیے غیروں کے محتاج بن چکے ہیں، بہت کم اہل وطن جانتے ہیں وہ پاکستانیوں کی بھی ملکہ تھیں، 1956 میں آئین نافذ ہوا تو ان سے جان چھوٹی تھی، وہ دومرتبہ پاکستان آئیں وہ رشتے کے اعتبار سے ہماری نانی اماں لگتی تھیں۔ نانی اماں کی موت پر اہل پاکستان میری تعزیت قبول فرمائیں اور عہد کریں کہ اپنے بچوں کو کرکٹ عفریت سے دور رکھیں گے جو آپ کے باقی ماندہ ملک اور معیشت کو نگلنے کے لیے بے تاب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button