ColumnJabaar Ch

مغالطے .. جبار چودھری

جبار چودھری

غلط فہمی اور مغالطے لگ جاناکوئی بڑی بات نہیں ہاں غلطی فہمیاں پالناخود کے ساتھ ظلم ضرورہے اور مغالطے اورغلط فہمیوں کی تبلیغ اور ترویج کرنا معاشرے پر ظلم ہے۔یہ معاشرتی ظلم اب فیشن کی حد کو پہنچ گیا ہے۔ہم بطورانسان اورمعاشرہ بدترین تقسیم کا شکارہوچکے ہیں۔نظریات کی تقسیم ہوچکی، سیاسی تقسیم الگ ہے۔ اپنی اپنی پارٹی اپنا اپنا بیانیہ اور اپنا اپنا سچ۔ہر کسی کے پاس اپنے لیڈر کے گناہوں،غلطیوں اورغلط فہمیوں کے سیکڑوں جوازاور وضاحتیں۔صرف وہی حقیقت جو ہم خیال لوگ اور نظریات بتااور دکھا رہے ہیں۔ خود سے کسی پر سوال اٹھانے ،تحقیق کرنے یا سچ تلاش کرنے کی زحمت ہی گوارانہیں۔معاشرتی زوال ہمہ گیر۔پھر یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے ڈیزائن اورمنصوبے کے عین مطابق۔ جو لوگ سیاسی طورپر کسی سے وابستہ ہوچکے انہیں ساتھ رکھنے کے لیے فیک نیوزکی صورت من گھڑت کہانیوں کو حقائق کہہ کرذہن سازی کا مسلسل عمل جاری ہے۔سوشل میڈیا میں واٹس ایپ گروپس اس کا موثر اوربڑا ہتھیار ہیں۔
تشویش اس بات پر نہیں کہ عام لوگ مغالطے پالتے اورپھیلاتے ہیں بلکہ تشویش کی اصل بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ،سمجھدارصرف سوشل میڈیا کوعلم کا ماخذسمجھ کربھروسہ کیے بیٹھے ہیں اور اس کا علاج صرف تحقیق لیکن کرنے کی زحمت ہی نہیں۔ عمران خان صاحب پرتوہین عدالت کا کیس بناتو ایک بظاہر سمجھدارلیکن خان صاحب کے حمایت یافتہ دوست نے ایک گروپ میں لکھ مارا کہ عمران خان کا تو ایک بیان پکڑلیا ہے لیکن نوازشریف نے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا تھا اس پر کوئی پکڑ نہ کارروائی۔ یہ سلیکٹڈ انصاف کیوں؟یہ بات وقت اور اپنے نظریات والوں کو لیڈر کی غلطی کاجوازدینے کے لیے توبہترین ہے لیکن حقیقت تو نہیں تھی۔یہ مغالطہ لوگوں نے پال رکھا ہے کہ سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا تو اس کی کسی کو کوئی سزا ہی نہیں ملی تھی۔نہ کوئی کیس چلا نہ کسی کی پکڑ۔بس سب بچ گئے تھے لیکن ایسا تو نہیں ہے۔اس حملے کا باقاعدہ کیس چلا،سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی ہوئی۔ اس کیس میں مسلم لیگ نون کے کم از کم تین ایم این ایزکوسزاہوئی اور سیاست سے نااہل بھی ہوئے۔ان میں مرحوم طارق عزیز،اختر رسول اور میاں منیر نمایاں ہیں۔ میاں نوازشریف پر حملہ کروانے کا الزام تھا اورچودھری پرویز الٰہی پر اس آپریشن کی نگرانی اورانجام دینے کی پلاننگ کا لیکن نوازشریف کو اس کیس میں سزا نہیں ہوئی کیونکہ موقع پر موجود نہ تھے اور نہ ہی پرویز الٰہی کو سزا ہوئی کیونکہ وہ بھی موجود نہیں تھے۔آج وہی پرویز الٰہی، عمران خان کے وزیراعلیٰ ہیں۔یہ بات کرنا آسان ہے کہ نوازشریف کیوں بچ گئے تو اس کو اگر عمران خان صاحب کے پی ٹی وی حملہ کیس کے تناظر میں دیکھا جائے توسوال کا جواب شاید مل جائے۔عمران خان اس کیس میں بری کیے گئے کیونکہ خود حملہ آور نہیں تھے حالانکہ صدرعارف علوی کی آڈیو موجود ہے کہ حملہ کی اطلاع دینے کے لیے خان صاحب کو رپورٹ پیش کررہے تھے۔اب عمران خان صاحب کے خلاف توہین عدالت کا کیس چل رہا ہے وہ معافی مانگ کر جان چھڑاسکتے ہیں لیکن نہیں مانگ رہے کہ مقبولیت کا زعم ہے اورگوارانہیں کہ اتنے بڑے لیڈرکسی کے سامنے ہاتھ جوڑ لیں ۔سوکیس چلے گامعافی تومانگنی پڑے گی نہیں تونوازشریف کی صف میں کھڑاہونا پڑے گا۔ امید ہے جوش پر ہوش غالب آئے گا۔
ایک اور مغالطہ بھی بہت ہی اہم ہے کہ خان صاحب پاک فوج پر تنقید کرتے ہیں تو کیا نیا کرتے ہیں اور ان کی پکڑ ہی کیوں اس سے پہلے نوازشریف، آصف زرداری اورمریم نوازبھی فوج کیخلاف زبان کھول چکے ہیں۔عمران خان خود اپنے جلسوںمیں ان لوگوں کے بیانات چلواتے ہیں۔سوال وہی کہ ان کے خلاف کیوں کچھ نہیں ہوا اورعمران خان کے خلاف کیوں ہورہا ہے۔اس حوالے سے عرض کیے دیتے ہیں اور مغالطے دورکیے دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ماضی میں کسی نے غلط کیا تو کسی دوسرے کی غلطی عمران خان صاحب یا کسی کے لیے غلطی کا جواز نہیں بن سکتی۔کہاوت بھی ہے کہ دوغلطیاں مل کر ایک چیز کودرست نہیں کرسکتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پہلے کسی کو سزا نہیں ملی ایسے بیانات کی تو یہ سراسر مغالطہ ہے جو اپنے کارکنوں کو اپنی غلطی کا جوازدینے کے لیے بیانیہ بناکرتھمایا جاتا ہے۔حقیقت یہ کہ پاک فوج پر جب بھی کسی نے بلاجوازیا ایک حد سے باہر نکل کرریڈلائن کراس کی اسے کسی نہ کسی صورت سزا ملی۔زیادہ دور کا تجزیہ نہیں کرتے۔قریب قریب رہتے ہیں۔ نون لیگ کے دورحکومت میں نوازشریف وزارت عظمیٰ پر براجمان تھے۔ آصف زرادری نے اینٹ سے اینٹ بجانے والا بیان دیا۔آپ کو یاد ہوگاانہوں نے کہا تھا کہ تم تین سا ل کے لیے آتے ہو ہم ہمیشہ رہتے ہیں۔ بیان تو دے دیاکیوں دیا کس کے اشارے پر دیا یہ بحث الگ لیکن اگلے ہی دن اینٹ سے اینٹ بجانے والے کی اپنی اینٹ سے اینٹ سے بجنا شروع ہوگئی۔ زرداری صاحب باقاعدہ ملک سے فرارہوکر دبئی جابیٹھے۔دوسال تک ایسے لگا کہ زرداری صاحب دنیا میں ہی موجود نہیں اور ان کو معافی کب ملی جب نوازشریف کا ’’مکو‘‘ ٹھپنے کا فیصلہ ہوااورزرداری صاحب نے اس گناہ کا کفارہ اداکرنے کے لیے واپس آتے ہی بلوچستان حکومت گرائی اور نواز شریف پر گریٹر پنجاب بنانے اور دھرتی کے ناسور جیسے بیانات دیے۔
نوازشریف کے حوالے سے بھی مغالطہ دور کرلیں ۔جب نوازشریف نے گوجرانوالہ میں بیان دیا تو پہلے مرحلے میں میڈیا سے ان کی واپسی شروع ہوگئی۔ بلاول بھٹو نے بیان سے جھٹکا لگنے کا بیان دیااورکراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے میں نواز شریف کی تقریر نہ کرواکر پیغام دیا کہ نوازشریف نے جو فوج مخالف بیان دیا ہے اس کی معافی نہیں ہے۔اس کے بعد نوازشریف کی پاکستانی میڈیا پر براہ راست ہی نہیں بلکہ کوئی بھی تقریر چلانے یہاں تک کہ ان کی کوئی بھی سرگرمی دکھانے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ کچھ صحافی آزادی اظہار رائے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست لیکر گئے لیکن پذیرائی نہ ملی۔اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلنے والی نوازشریف کی اپیل پرریلیف تو دور انہیں مفرورقراردینے کی کارروائی شروع ہوئی ۔جس کیس میں ان کو ضمانت اورسزا معطل کی جاچکی تھی وہ بھی بحال کردی گئی ۔نوازشریف کو ایک مفرورمجرم کا اسٹیٹس دے دیا گیا۔
مریم نوازشریف کا معاملہ بھی کسی مغالطے سے کم نہیں ہے۔مریم نوازکی سزامعطل ہے اوروہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر ہیں۔ یہ کیس غیر ضروری طوالت اختیارکرتا جارہا ہے۔اس کا فیصلہ کیوں نہیں ہورہا یہ سب کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ مریم نوازاپنا پاسپورٹ واپس لینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں تین مرتبہ پٹیشن کرچکی ہیں لیکن ہر بار سماعت سے پہلے بینچ ٹوٹ جاتا ہے اورمریم نواز کی تمام تر کوششوں کے باوجود قانونی نکات میں ایسا الجھایا جاچکا ہے کہ پاسپورٹ واپس نہیں مل رہا۔ اس کے علاوہ کیا یہ کسی کویاد نہیں کہ مریم نوازشریف کو میڈیا پر دکھانے پربھی غیراعلانیہ پابندی رہی۔ ان کی ریلیاں تک دکھانا منع تھا ۔
کسی کو سزا نہ ملنے کے مغالطے پالنے اورانکی ترویج کرنیوالے کیا ان واقعات کو سزا نہیں سمجھتے؟ اور کیا فوج پر تنقید کرنے پر عمران خان صاحب کو اس کے علاوہ بھی کوئی سزا ملی ہے ا ب تک؟ایسا کیا نیا ہوا ہے ان کے ساتھ؟ فوج پر گولہ باری کرنے والوں پر میڈیا کی پابندیاں تو پہلے بھی لگی ہیں اب اس میں نیا کیا ہے اوریہ صرف مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والے نوازشریف اور زرداری کو چھوڑدیا گیا تھا؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button