ColumnQaisar Abbas

سیلاب نے نلتر روڈ تباہ کر دی‎‎ .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

بارشوں سے بن چکے سیلاب نے شمالی علاقہ جات کی سڑکیں صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالیں ۔ نلتر کی طرف جانے والی وہ سڑک جو جون کے آخر میں تکمیل کے قریب تھی اور یوں لگتا تھا کہ اگست کے مہینے میں آنے والے سیاح نومل سے نلتر تک جیپ کے محتاج نہیں ہوں گے بلکہ اپنی گاڑیوں پر نلتر زیرو پوائنٹ تک پہنچیں گے ۔ فطرت اپنے ساتھ چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کرتی ۔ سیلاب نے وہ سڑک اور اس کے گرد تعمیر کئے گئے پختہ حفاظتی حصار روئی کے گالوں کی طرح اڑا کر رکھ دئیے ۔
آئندہ برس تک شاید ہی یہ راستے بحال ہو سکیں گے ۔ جون کے وسط میں یہی سڑکیں پاک فضائیہ اور ریاست کے بجٹ سے منی موٹر وے بن رہی تھیں ۔
قراقرم کے دل میں واقع تین جھیلیں گلگت کی دو ہزار جھیلوں میں نمایاں تھیں ۔ نلتربالا سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہم ست رنگی جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور اس جھیل کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ 3050 میٹرز میں پھیلی یہ گول جھیل اپنی تہہ تک عیاں تھی اور اس پر بادلوں کا دودھیا رنگ نمایاں تھا۔ برف کے ٹکڑے پانی میں راج ہنسوں کی طرح تیرتے تھے ۔ درختوں میں ڈھکی اس جھیل پر ٹہنیاں یوں جھکی تھیں جیسے پانی پر سجدہ ریز ہوں ۔ ست رنگی جھیل میں سبز رنگ اس کی تہہ کا تھا اور پانی نیلا تھا ۔ اطراف میں پہاڑوں کا چٹیل وجود بھی جھیل میں رقص کرتا تھا تو رنگ بدل بدل کر منظر تخلیق ہوتے تھے ۔
کوئی بھی منظر دراصل ہمیشہ سے بے رنگ ہی ہوتا ہے ۔کیف ، خوشبو اور دھنک تو دیکھنے والے کی خواہشات کی وہ منازل ہیں جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر کر لیتا ہے ۔
بے ذوق آدمی کے لیے ست رنگی جھیل پانی کا جوہڑ بھی ہو سکتی ہے ، مگر جس جاگتی آنکھ نے برسوں ایسے مناظر خیالوں میں تخلیق کئے ہوں، اس کے لیے تو وہی حاصل سفر بھی ہے اور منزل بھی۔
ست رنگی جھیل کے کنارے سرکاری ریسٹ ہاوس کی عمارت پرشکوہ ہونے کے باوجود ویران تھی۔جب ہم وہاں پہنچے تو ساکت ہوگئے ۔ شفاف پانی میں بادلوں کا دودھیا عکس تھا اور سبز کائی جمی تھی۔ جھیل کے اطراف میں کچھ قدیم
درخت پانی پر یوں جھکے ہوئے تھے جیسے بوسہ لے رہے ہوں ۔
ریسٹ ہاؤس کی طرف جو جھیل کا کنارا تھا، وہاں راشد ، کنول ، اسرار احمد ، ڈاکٹر قرۃ العین اور تمام بچے جھیل کو دیکھتے کم تھے اور فوٹو گرافی زیادہ کر رہے تھے ۔ میں عین اسی لمحے ست رنگی جھیل کے دوسرے کنارے پانی میں تمہارا عکس دیکھتا تھا ۔ برف پانی میں جم چکی آنکھیں جھیل جیسی تھیں اور ان آنکھوں میں جو خواب تھے وہ بادلوں میں چھپے جاتے تھے ۔ سر سبز درخت اپنا رنگ ست رنگی جھیل میں انڈیل رہے تھے ۔
پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ہم بھی وہاں پہنچ گئے جہاں ہمارے سب دوست موج مستی کر رہے تھے۔ اس برف دھرتی پر ملتان کی گرم دھرتی کے آم اسرار چودھری نے سبھی کے لیے عام کر دئیے تو پھر چند لمحوں میں ہر سو مٹھاس پھیل گئی ۔ ایسا ذائقہ ہر جانب پھیل گیا جس سے نلتر کی فضا واقف نہ تھی ۔ سیبوں ، اخروٹوں اور خوبانیوں کے دیس میں آم عام ہوتا گیا ۔ جھیل ست رنگی کے کنارے زرد رنگ کی کمی تھی وہ آموں نے پوری کر دی ۔
ایسی جھیلیں بہت کم ہوتی ہیں جو خوبصورت بھی ہوں اور انہیں چھوا بھی جا سکے ۔ ست رنگی جھیل آسان دستیابی کے باوجود بہت دل کش جھیل تھی –
یہ سراسر شیشہ جھیل تھی اور اگر اس میں بادلوں کا ، آسمان کا ، درختوں کا عکس نہ ہوتا تو یہ شاید چھو لینے کے بعد پتا دیتی کہ یہ جھیل ہے ۔ جھیل کی تہہ میں سے ابلتے چشمے جو بلبلے بناتے تھے وہ ہمیں بتاتے تھے کہ یہاں پانی بھی ہے ۔ ایسے رنگ کسی اور جھیل کا مقدر نہ ہوئے تھے یا پھر یہ جھیل نہ تھی ۔ ست رنگی دنیا بہت مختصر اور قابو میں تھی ۔ بدلتے رنگ بھی کہیں تہہ سے پہلو بدلتے تھے ۔جھیل کے اندر کی دنیا بھی اب پر عیاں ہوتی تھی ۔ کہیں کوئی خزاں رت پتہ گرا تھا تو وہ سونا ہو گیا تھا ۔ کہیں دلدل تھی اور کہیں لکڑی کے تنے شیشے کے آبی فریم میں جڑ دئیے گئے تھے ۔ جھیل کے تمام اطراف سے طواف کیا تو ایک نشہ سا طاری ہو گیا ایسا نشہ جو ایک الگ ذائقہ اور لمس رکھتا تھا۔
یہ ست رنگی جھیل تھی ۔
ست رنگی جھیل مختلف مصوروں کے ہاتھوں سے بنی ایسی شاہکار تصویر تھی جو سانس بھی لیتی تھی اور خفا بھی ہو جاتی تھی ۔ ہم نے جھیل کے کناروں پر گندگی میں اضافہ نہ کیا ۔ کوئی چھلکا ، کوئی بوتل نہ پھینکی ۔
چودہ رکنی گروپ میں چند بچے بھی شامل تھے ، پھر بھی ہم اپنا اپنا کوڑا کرکٹ ساتھ اٹھا لائے ۔ مقدس وادی کو آلودہ نہ کیا ۔
ہم دونوں اس رنگ بھری جھیل کے گیلے کناروں سے ہوتے ہوئے واپس لوٹ آئے تو سب کو مست دیکھا، سب اپنی اپنی سیلفیوں میں مشغول و مصروف تھے ۔ سب اپنی دنیا میں گم تھے۔ ہم ایک دل موہ لینے والے منظر کو جذب کرنے کی کوشش میں مجذوب ہوئے جاتے تھے اور پھر آخر کار وہاں سے چل دئیے ۔ دل ابھی بھرا نہ تھا کہ نئی منزلوں کی طرف چل پڑے ۔ جیپوں کے ڈیزل انجن فضا کو آلودہ کر رہے تھے جب ہم نئی منزلوں کی طرف چلے مگر یہ ساتوں رنگ یاداشت کی سلیٹ پر کنندہ ہو گئے۔ نلتر جھیل پھر صرف خواب نہ رہی ، تعبیر بن گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button