ColumnImtiaz Aasi

پنجاب میں سیاسی ہلچل اور توہین عدالت کیس .. امتیازعاصی

امتیازعاصی

تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرا عظم عمران خان نے دعوی ٰ کیا ہے پنجاب حکومت گرانے کیلئے ساز ش ہو رہی ہے اور اس مقصد کیلئے ان کے ایم پی ایز کوکروڑوں کی آفر کی جا رہی ہے بلکہ ایم پی ایز کو ڈرایا دھمکا یا جا رہا ہے ۔بعض خبروں کے حوالے سے پنجاب میں سیاسی تبدیلی لانے کیلئے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری ایک بار پھر متحرک ہو چکے ہیں۔پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے مسلم لیگ نون کو سیاسی لحاظ سے بڑا ھچکا لگا ہے جس کے پنجاب کی آئندہ سیاست پر بڑے گہر ے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی منجھے ہوئے سیاست دان ہی نہیں بلکہ اچھے منتظم کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔مشرف دور میں وہ طویل عرصے تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اس دوران انہوں نے صوبے کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کو شش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ٹھہرے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ نون نے اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حمزہ شہباز شریف کووزیراعلیٰ بنایا جنہیں تھوڑے عرصہ بعد اپنے منصب سے علیحدہ ہونا پڑا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق پنجاب کے موجودہ سیٹ اپ میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی تو اس سے سیاسی انتشار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی جنوبی پنجاب کے اضلاع کے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکے ہیںانہیں سیلاب زدگان کے مسائل سے عہدآ برا ہونے کے ساتھ ساتھ بعض حلقوں کی طرف سے عدم تعاون کا سامنا ہے اس کے باوجودچودھری پرویز الٰہی کی حکومت مسلم لیگ نون کی حکومت کے مقابلے میں کافی مارجن پر کھڑی ہے۔ان حالات میں پی ڈی ایم والوں کو چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نون اور آصف علی زرداری کو اس مقصد کیلئے کہیں نہ کہیں سے گرین سگنل تو ضرور ملا ہوگا ورنہ وہ ایسے ہی صوبے میں تبدیلی لانے کیلئے میدان میں کبھی نہ اترتے۔اگر ہم موجودہ دور کی سیاست کا جائزہ لیں تو ہماری سیاسی جماعتیں ملک کوبنانا ری پبلک بنانے کی طرف گامزن ہیں۔ملک کی معاشی صورت
حال اس قدر خراب ہے ہمارا ملک کسی وقت بھی ڈیفالٹ ہو سکتا ہے۔آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کی قسط ملنے کے باوجود ڈیفالٹ کے خطرات منڈلارہے ہیں ۔سیاست دان مال ودولت کے بل بوتے پر حکومتوں کوہٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔آصف علی زرداری سے بھلا کوئی پوچھے انہوں نے اپنے صوبے کے سیلاب زدگان کی اب تک کیا خدمت کی ہے؟غریب عوام سیلابی پانی میںڈوبے ہوئے ہیںاور زرداری اپنی علالت کا بہانہ بنا کر سیلابی علاقوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔اس کے برعکس وہ پنجاب حکومت میں تبدیلی لانے کیلئے سرگرم ہیں۔ پنجاب جوکبھی مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا تھاچودھری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد اور پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی نے مسلم لیگ نون کے ووٹ بنک کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچا یا ہے۔شاید اسی لیے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے اپنی بیٹی اور پی ایم ایل کی نائب صدر مریم نواز کو پنجاب میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔اس وقت جی بی جی، آزادکشمیر، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مسلم لیگ قاف کے اشتراک سے پی ٹی آئی بڑی کامیابی سے حکومت کر رہی ہے ۔مسلم لیگ نون کے قائدنواز شریف کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ پنجاب میں اپنے ووٹ بنک کسی طریقہ سے برقرار رکھ سکیں۔مریم نواز کو جلسوں سے خطاب کا ٹاسک دینے کا ان کا بڑا مقصد کسی طریقہ سے اپنے ووٹ بنک کو بحال کرنا ہے ۔ حالا ت اور واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ قاف اور پی ٹی آئی کے متفقہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی ٰ نے جب سے صوبے کی باگ دوڑ سنبھالی ہے وہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔متاثرین سیلاب کیلئے قرضہ حسنہ کی سکیم شروع کرکے انہوں نے
متاثرین کے مردہ جسم میں جان ڈال دی ہے۔ قرضہ حسنہ کی رقم سے متاثرین کی کچھ نہ کچھ تو اشک شوئی ہوگی۔تاسف ہے کہ تین کروڑ سے زیادہ آبادی سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اور نواز شریف اور زرداری کو پنجاب میں تبدیلی لانے کی پڑی ہے جو اس امرکا غماز ہے انہیں عوام کی مشکلات سے کوئی دل چسپی نہیں ہے بلکہ اقتدار سے لگائو ہے ۔جب تک سیاست دان ذاتی مفادات کے خول سے باہر نہیں نکلیں گے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔سیلاب کی سنگینی کے پیش نظر اقوام متحدہ کے سیکر ٹری پاکستان کے دورے پر ہیںتاکہ سیلابی تباہ کاریوں کا جائزہ لے سکیں۔پی ڈی ایم کو پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کو حکومت کرنے دینا چاہیے۔آئے روز حکومتوں کو گرانا اور نئی حکومت کو لانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت نے اب تک عوام کیلئے کیا ہی کیا ہے سوائے نیب قوانین میں ترامیم کرکے اپنے خلاف مقدمات کی واپسی کے سوا کیا ہی کیا ہے؟درحقیقت ملکی سیاست سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین نے ملکی سیاست میں دو خاندانوں کی جو اجاردہ داری ختم کی ہے اس کے مستقبل میں ملکی سیاست میں دو رس نتائج نکلنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جس طرح عوام نے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم کے امیدواروں کو مسترد کیا ہے اسی طرح عام انتخابات میں توقع کی جا سکتی ہے وہ پی ڈی ایم کے امیدواروں کو مسترد کرکے راست باز قیادت کا انتخاب کر یں گے ۔ سابق وزیراعظم عمران خان توہین عدالت کیس میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیتے تو معاملہ ختم ہو سکتا تھا۔توہین عدالت آرڈننس مجریہ 2003 کی دفعہ (5)(2)کے تحت کوئی ایسا شخص جو توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہا ہو ، کاررووائی کے کسی بھی مرحلے پر معافی طلب کر سکتا ہے ۔عدالت اگر اس کی نیک نیتی سے مطمئن ہو تو یا اسے ڈسچارج کر سکتی ہے یا اس کو اس سلسلے میں سنائی گئی سزا معاف کر سکتی ہے۔ بہترہوتا عمران خان عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیتے تو مقدمہ ختم ہو سکتا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button