Columnمحمد مبشر انوار

ستمبر یا جنوری؟ ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

مقابلے کے کسی بھی میدان میں اُترنے سے قبل،دشمن کو کمزور سمجھنے والے،بالعموم ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں کہ اس کے پس منظر میں خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد،ناکامی کا سبب بنتا ہے،یہ ایک تاریخی و مسلمہ اصول ہے۔پاکستان میںاس وقت جو سیاسی اکھاڑہ سجا ہوا ہے اس میں واضح ہے کہ تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں سے بالعموم جبکہ پی ڈی ایم سے بالخصوص کئی کوس آگے ہے،اور بظاہر محسو س ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کے مخالفین کونوں کھدروں میں چھپ رہے ہیں۔جمہوری اقدارکے مطابق پی ڈی ایم اس وقت کسی بھی صورت عام انتخابات میں جانے کیلئے تیار نظر نہیں آتی،ویسے یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستانی سیاسی افق پر جمہوری اقدار یا جمہوریت کا دکھاوا ہی نظر آتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں جمہور کے طفیل اقتدار تک پہنچنے کی آس تک چھوڑ چکے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ صاحب اقتدار جماعت کو ہمیشہ لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار کا تیر بہدف نسخہ کیا ہے۔اس تیر بہدف نسخہ کو کل تک عمران خان ایک پیج کہتے رہے جبکہ موجودہ حکمرانوں نے اس کا نام حب الوطنی رکھ رکھا ہے لیکن حقیقت وہی ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اپنے قد کاٹھ کے عین مطابق اقتدار میں حصہ بقدر جثہ موجود ہیں ۔ دوسری طرف عمران خان سڑکوں پر کھلے عام موجودہ وزیر اعظم کو کبھی چیری بلاسم تو کبھی بوٹ پالش کرنے والا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں اور اپنی بھرپور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح موجودہ حکومت پر دباؤ مسلسل بڑھاتے رہیں تا کہ حکومت عام انتخابات کیلئے مجبور ہو جائے۔ پاکستان میں اقتدار کی ہئیت اور اس کے عناصر کو ذہن میں رکھا جائے تو اس خواہش کو ،خواہش ناتمام کا نام دیا جا سکتا تھا کہ منصوبہ سازوں کے منصوبہ کے عین مطابق عام انتخابات اپنے وقت پر ہونے ہیں،لیکن مجبوری یہ ہے کہ عمران خان ترکیب اقتدار کے خلاف؍برعکس جا چکا ہے، عمران خان نے اپنا رابطہ براہ راست عوام سے جوڑ لیا ہے یا بہتر اور مناسب الفاظ میں اسے یوں کہہ لیں کہ عوام نے اپنی امیدیں عمران خان سے وابستہ کر لی اور عمران خان کو عوام کے پیچھے بنی گالہ سے نکلنا پڑاہے اور عوام عمران خان کی توقعات سے کہیں زیادہ اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اب عمران خان ان امیدوں پر پورا اتر پاتے ہیں یا نہیں،اس کا فیصلہ کم از کم ان کے سابقہ دور اقتدار سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستانی عوام اس حقیقت سے بخوبی واقف رہے ہیں کہ ایسے اقتدار میں کیا رکاوٹیں درپیش رہتی ہیں اور کیونکر عمران خان عوامی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے۔یہ گمان ،یہ سوچ عوام میں بدستور بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور عمران خان کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد باوجودکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے، موجود نظر آتی ہے،نہ صرف موجود نظر آتی ہے بلکہ جوش و جذبے سے بھی بھرپور دکھائی دیتی ہے۔
عمران خان نے مختصر سی ٹیلی تھون کے ذریعے جو خطیر رقم سیلاب زدگان کیلئے اکٹھی کی ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بھی عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان پر بلا شک و شبہ اعتماد کرتی ہے بالخصوص سماجی خدمت کیلئے فنڈز اکٹھے کرنے اور ان فنڈز کے مصارف پر عوام کا اعتماد ہنوز عمران خان پر دیگر جماعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تسلیم کہ اس دوڑ میں الخدمت ،ایدھی،چھیپا یا کسی بھی دوسری خدمت خلق کی تنظیم کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتالیکن اس کے باوجود عمران کی ذاتی ساکھ یا قد آور شخصیت عمران کو ان سے ممتاز
کرتی ہے۔ گو کہ عمران خان پر اس دوران فنڈز اکٹھے کرنے کے حوالے سے کئی ایک سنگین ترین الزامات ہیں لیکن عوام ہر مشکل ترین گھڑی میں اس پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے،اے چارہ گر!اس کا کیا علاج کیا جائے!ایک طرف عمران خان سیاسی میدان میں پورے قد کے ساتھ اپنے مؤقف پر کھڑا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستانی عوام کو ابتلاء کی اس گھڑی میں تنہا چھوڑنے کیلئے تیار نہیں،اور نہ ہی پاکستانی عوام کسی اور پر اعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری دیگر سیاسی اشرافیہ کی حالت یہ ہے کہ ان پر نہ عوام اور نہ ہی اقوام عالم میں امداد دینے کیلئے تیار ممالک ،سو فیصد اعتبار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک ماضی کی بدترین مالی بدعنوانیوں کی مثالیںموجود ہیں۔
موجودہ سیلاب نے پاکستان اور پاکستانیوں کو جس بری طرح سے متاثر کیا ہے،اس کا حقیقی تخمینہ تو خیر بعد میں سامنے آئے گا لیکن اس ہنگام میں جاری سیاست میں کچھ حتمی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ پس پردہ عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ عام انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیتے ہیں لیکن اس کیلئے کچھ وقت درکار ہے۔پاکستانی سیاست میں ایک عرصہ سے،کچھ احباب غلط طریقے سے اس کو75 برس سے جوڑ دیتے ہیں کہ ابتداء میں ایسا کوئی تصور نہیں رہا،ایک مخصوص تعیناتی انتہائی اہم رہی ہے ،جو مستقبل میں سیاست کے خدوخال واضح کرتی رہی ہے،اس کیلئے عموماً ہر سیاسی قیادت کی یہ کوشش رہی ہے کہ اس تعیناتی میں نہ صرف اس کی مرضی و منشا شامل رہے بلکہ کسی طرح تعینات ہونے والے کو زیربار بھی رکھا جا سکے،اس مقصد کیلئے بالعموم وزیراعظم اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے نامزد گان میں سب سے آخری شخصیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ الگ بات
کہ تعینات ہونے والی شخصیت اس حمایت کو اتنی اہمیت نہیں دیتی کہ نامزدگان میں سے کوئی بھی تعینات ہو،ان کے پیش نظرادارے کی پالیسی یا ترجیحات رہی ہیں کہ یہی پاکستانی تاریخ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان موجودہ صورتحال میں بظاہراس تعیناتی کو بھی کوئی خاص اہمیت دیتے دکھائی نہیں دیتے اور بہرصورت عام انتخابات کے متمنی ہیں۔ شنید یہ ہے کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے عمران خان کو یہ کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان جنوری میںکردیا جائے گا کہ موجودہ ملکی صورتحال فی الوقت عام انتخابات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ قریباً ساڑھے تین کروڑ شہری سیلاب کی براہ راست تباہ کاریوں سے متاثر ہیں،لہٰذا پہلے اس مشکل سے نکل جائیں،بے گھر ہونے والے شہریوں کو دوبارہ آباد کر لیں پھر انتخابات کروا دئیے جائیں گے۔بالفرض اگر عمران خان کو نومبر میں ہونیوالی تعیناتی پر کوئی اعتراض یا اس تعیناتی سے کوئی غرض نہیں تو پھر انتخابات خواہ ستمبر میں ہوں یا جنوری میں،اس سے کوئی فرق انہیں نہیں پڑنا چاہئے لیکن نومبر کی تعیناتی سے کوئی بھی پاکستانی سیاستدان صرف نظر نہیں کر سکتا۔ بالخصوص موجودہ صورتحال میں جب نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ تواتر سے کیا جار ہا ہے اور خود عمران خان کے گجرات جلسے میں مونس الٰہی، مریم نواز کو للکار چکے ہوں کہ بی بی اب کھیل تمارے بس میں نہیںابا جی کو بلوا لو،تب عمران خان اس تعیناتی سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ بلا شبہ اس وقت عمران خان کے جلسے ماضی کے تمام ریکارڈتوڑ رہے ہیں لیکن یہاں یہ تاثر رکھنا کہ اب صرف عمران خان ہی اکیلے اس میدان کے شہسوار ہیں،قطعاً عقلمندی نہیں ہو گی بلکہ پاکستانی سیاست کا یہ خاصہ رہا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود آج بھی گنے چنے ہی سہی پیپلز پارٹی کے ووٹ بہرکیف پنجاب میں موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف کا ووٹ بنک بالکل ہی پنجاب میں ختم ہو چکا ہو؟ضمنی انتخابات کے نتائج میں دیگر محرکات کو کسی صورت بھی نظرانداز نہیں کیاجا سکتا،جس میں سرفہرست نون لیگ کے مقامی امیدواران کی نواز شریف کے ساتھ وابستگی کے باوجود منحرف اراکین کو ٹکٹ دیا جانااور لیگی ووٹرز کا باہر نہ نکلنا بھی شامل ہے۔ اس پس منظر میں ،پی ٹی آئی کے فیصل آبادجلسہ سے قبل تک یہ محسوس ہورہا تھا کہ جس طرح پی ٹی آئی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے، اس سے عین ممکن ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کا اپنا ہدف حاصل کر لے اور موجودہ حکومت کو گھر بھیج کر نئے،شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرکے،ستمبر کو حکومت کیلئے ستمگر بنادے لیکن فیصل آباد جلسے کے بعد معاملات یکلخت بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ نجانے یہ عوامی مقبولیت کا نشہ تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھایا حد سے زیادہ خوداعتمادی تھی کہ عمران خان نے ایسی باتیں کہہ دی،جو موجودہ صورتحال میں عمران خان سے توقع نہیں تھی ،موجودہ حکومت کی ماضی قریب میں کی گئی باتوں ایسی ہی باتوں کا نہ تو جواز بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عمران خان کے وہ زمینی حالات ہیں کہ وہ ایسی باتیں کرکے مزید مشکلات سے بچ جائیں۔ عمران خان کے حوالے سے صورتحال برعکس ہے کہ عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کیلئے بہرطور ایسا مضبوط جواز اس سے قبل موجود نہیں تھا اور پاکستانی سیاست کو مد نظر رکھیں تو عمران خان یہ جواز فراہم کر چکے ہیں بشرطیکہ عمران خان اپنی بات کی قابل قبول وضاحت نہ کر دیں،جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آتی۔ رہی بات ان کے رفقاء کی بڑھکوں کی تو ان بڑھکوں کو فقط للکارے یا اکسانے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو عمران خان کیلئے مشکلات مزید بڑھا سکتی ہیں،بہرکیف موجودہ صورتحال میں عام انتخابات کا انعقاد،جو افواہیں زیر گردش رہی ہیں کہ ستمبر یا جنوری میںہو سکتے ہیں،اب ممکن ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر ستمبر سیاست کیلئے ہی ستمگر نہ بن جائے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button