سماجی برائیاں کیوں عام ہو گئیں؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
آج ہمارے معاشرے میں جو سماجی برائیاں عام ہو گئی ہیں، مثلاً بے حیائی، باہم رضامندی کے ساتھ ناجائز جنسی تعلق، زنا کاری اور عصمت دری کے روز افزوں واقعات، اغوا، زوجین کے درمیان بے اعتمادی اور ایک دوسرے کے حقوق سے بے پروائی اور طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان وغیرہ، ان کے اسباب پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایک بنیادی سبب بے حجاب معاشرت ہے۔ نوجوان لڑکیاں اور عورتیں انتہائی زیب و زینت کے ساتھ بلا روک ٹوک، بے حجابانہ نوجوان لڑکوں اور مردوں کے سامنے آتی ہیں، اس لیے وہ آسانی سے فتنے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ ظاہر کرنے کے لیے دوسروں کی نقّالی کر رہے ہیں۔ کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارا معاشرہ اگر پاکیزہ ہو سکتا ہے تو صرف اسلام کے سایے میں اور ہماری زندگی چین و سکون سے گزر سکتی ہے تو صرف اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر۔
* اسلام نے معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے چند ہدایات دی ہیں۔ اگر ان کی پاس داری کی جائے تو بے حیائی اور بدکاری کا بڑی حد تک سدِّ باب ہو سکتا ہے :
1۔ اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں…اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ “ (النور:30-31)
ان آیات میں نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کا ایک ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں میں ایک خاص تعلق ہے۔ معاشرہ میں جس قدر بدکاریاں عام ہوتی ہیں، سب کا آغاز نگاہ کی آوارگی سے ہوتا ہے۔
2 – اس نے حکم دیا ہے کہ دوسروں کے گھروں میں بغیر پیشگی اطلاع یا اجازت کے نہیں داخل ہو نا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو -“ (النور:27)
اس حکم کا مقصد بھی یہی ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں کی نگاہوں سے محفوظ رہیں۔
3۔ وہ کسی بھی موقع پر نامحرم کے ساتھ تنہائی میں رہنے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے : ” کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہتا ہے تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ “ (ترمذی)
یہ حکم تمام نامحرموں کے لیے ہے۔ اس میں نامحرم رشتے دار بھی شامل ہیں۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ”عورتوں کے پاس تنہائی میں جانے سے بچو-“ ایک صحابی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! سسرال کے قریبی رشتے دار کے سلسلے میں کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا : ” وہ تو موت ہے – “(بخاری و مسلم)
4۔ وہ مردوں اور عورتوں کا گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتا اور نہ کسی موقع پر ان کے خلط ملط رہنے کا روادار ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک موقع پر مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا تو انھیں اس سے سختی سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد)
* اسلام نے لباس کے تعلق سے جو احکام دیے ہیں وہ پردہ کے سلسلے میں اس کی جامع تعلیمات کا حصہ ہیں۔ ان کا مقصد ستر پوشی کے ساتھ صنفی ہیجانات کو محدود کرنا ہے۔ لباس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ ستر ڈھانکنے والا ہو۔ (مرد کے لیے ناف اور گھٹنے کا درمیانی حصہ، جب کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ(کلائی تک) کے علاوہ پورا بدن ستر ہے-) عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اتنا باریک نہ ہو کہ اس سے بدن جھلکے، گھر سے باہر نکلتے وقت خوشبو میں بسا ہوا نہ ہو، ڈھیلا ڈھالا ہو، چست نہ ہو کہ جسمانی نشیب و فراز نمایاں ہو جائیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” وہ عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہیں، جو دوسروں کی طرف مائل ہونے والی اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں – "(مسلم)
”جو عورت خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرتی ہے وہ ایسی ویسی(یعنی آوارہ)ہے۔ "(ترمذی)
آپؐ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جوعورت جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مرد جیسا لباس پہنتی ہے۔ (ابو داؤد)
* اسلام نے عورت کو اس بات سے بھی روکا ہے کہ وہ بن سنور کر غیر مردوں کو دعوتِ نظارہ دیتی پھرے، چنانچہ اس نے اسے اپنی زینت کو چھپانے اور اپنے محاسن کو آشکارا نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور (عورتیں)اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں (پھر ان قریبی رشتے داروں کا ذکر ہے جن کے سامنے وہ اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہیں) اور وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں، کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ “(النور: 31)
”اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں-” (الاحزاب:95)
* چہرہ انسان کی شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ اسی بنا پر علماء نے کہا ہے کہ قرآن میں عورت کے لیے اظہارِ زینت کی جو ممانعت آئی ہے اس میں چہرہ بھی شامل ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اجنبیوں سے چہرہ چھپانا عورت کے لیے واجب نہیں، لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اس کا چہرہ چھپانا بہتر ہے۔
* سچے مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ پردہ کے سلسلے میں اللہ اور رسول کے ان احکام پر عمل کیا جائے۔ اس سے دنیوی اور اخروی دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں، عورت کو سماج میں قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہ اجنبی مردوں کی ہوس ناک نگاہوں سے محفوظ رہتی ہے اور احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کے نتیجے میں اسے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی بھی حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!