ذوالفقار علی بھٹو مرحوم
علی حسن
ذوالفقار علی بھٹو کا خاتمہ صرف ان کی بظاہر سیاست سے خاتمہ نہیں تھا بلکہ ان سے سیاسی طور پر چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ ایک مختصر وقت کے لئے تو ان کا خاتمہ کرنے والوں تسلی دے گیا لیکن آج بھی پاکستان کی سیاست پر بھٹو ہی حاوی ہیں۔ زیر نظر تحریر کو اپنے وقت کے سینئر اعلیٰ سرکاری ملازم روئیداد خان مرحوم کی انگریزی زبان کی کتاب ’’pakistan a dream gone sour‘‘ کے اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے تاکہ قارئین کو پاکستان کے سیاسی تغریرات سے آگا ہی حاصل ہو سکے۔
’’ اگر چہ 5جولائی1977ء کو مارشل لا لگانے کا جواز یہ دیا گیا تھا کہ اس سے پہلے حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ مارشل لا لگائے بغیر چارہ نہ تھا۔ مجھے اس رائے سے اتفاق نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ 5جولائی 1977ء سے پہلے ملک کے حالات کسی ایسی جگہ پر پہنچ چکے تھے کہ مارشل لگائے بغیر چارہ نہ تھا۔ میرے نزد یک ذوالفقار علی بھٹو پر مقدمہ قتل کی از سر نو تفتیش ، ان کی گرفتاری پھر ان پر مقدمہ قتل، ان سب کارروائیوں کے پیچھے محرکات سیاسی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر جس انداز میں مقدمہ چلا اس کا فیصلہ ہوا، فیصلہ پر عمل ہوا، میرے نزدیک ان سب مراحل پر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ جس لمحہ فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا تھا، ان کی موت اسی لمحے ان کا مقدر بن چکی تھی۔ جنرل محمد ضیا الحق نے پاکستان پیپلز پارٹی پر پابندی لگانے کی سر توڑ کوشش کی انہوں نے ایک اعلی فوجی افسر کو خاص طور پر اس لئے وزارتِ داخلہ بھیجا تا کہ وہ افسر ایسا مواد جمع کر لے جس کی بنا پر پاکستان پیپلز پارٹی پر پابندی لگائی جاسکے۔ لیکن وزارت داخلہ اور وزارت قانون دونوں نے اس کوشش کی بھر پور مزاحمت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پی پی پی پر پابندی نہ لگ سکی۔ جنرل محمد ضیا الحق نے اپنے دور اقتدار میں ایڑی چوٹی کا زور پی پی پی کو نیست و نابود کرنے پر لگالیا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے بلکہ وہ خود الیکشن ختم ہو گئے اور ان کے صفحہ ہستی سے مٹتے ہی پی پی پی پھر بر سر اقتدار آگئی۔
لے کامٹے انیکس ڈی ٹاکول(1805 تا1858) فرانس میں ایک سیاسی مفکر گزرا ہے اس نے ایک کتاب ہیں لکھی ہے جس کا نام ہے The Ancient Regime and the
French Revolution، اس نے اپنی اس کتاب میں ایک بات ایسی لکھی ہے جو ہمارے ماضی اور حال کی تمام حکومتوں پر صادق آتی ہے۔ خصوصا ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے زوال پر تو بہت ہی زیادہ صادق آتی ہے۔ وہ کہتا ہے تجربہ شاہد ہے کہ بری حکومت کے لئے سب سے زیادہ خطر ناک لمحہ وہ ہے جب وہ اپنے عمل اور طرز عمل کی اصلاح کا ارادہ کر لے۔ اگر کوئی حکمران اپنے طویل عہد ظلم و استبداد کے بعد عوامی فلاح و بہبود کا کام شروع کرنا چاہے تو صرف اعلی درجہ کا سیاسی تدبر ہی اس کا تخت بچا سکتا ہے کیونکہ عوام کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ حاکم کا وہ جبر و استبداد جسے وہ نا قابل علاج سمجھتے تھے ، وہ تو قابل علاج ہے ( تو پھر وہ حاکم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں) ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس وہ سیاسی تدبر اور زیرک ہوش مندی نہ تھی جس کا ٹاکول نے مندرجہ بالا الفاظ میں ذکر کیا ہے اس کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا، دونوں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ ان میں سے ایک یعنی ذوالفقار علی بھٹو تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اپنے اقتدار کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے آخری دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے سر توڑ اور بھر پور کوشش کی۔ ملائوں کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے شراب نوشی ممنوع قرار دیدی، انہوں نے قمار بازی بند کر دی، انہوں نے نائٹ کلبوں، شراب نوشی کے اڈوں سینما گھروں اور تمام ’ غیر اسلامی‘ ، حرکتوں کو ممنوع قرار دینے اور چھ ماہ کے اندر تمام ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق لے آنے کا وعدہ کیا۔ لیکن سب بیکار۔ ولپرٹ اپنی کتاب ’’ زلفی بھٹو آف پاکستان میں لکھتا ہے‘‘: اس وقت تک ( ذوالفقار علی بھٹو) کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے سب سے کٹر مخالف وہ کروڑوں راسخ العقیدہ مسلمان تھے جو فوج کے اندر اور فوج کے باہر ہر جگہ موجود تھے اور جن کا ایمان تھا کہ خدائی قانون ، ملکی قانون سے کہیں زیادہ ارفع ، اعلی اور طاقتور ہے۔ ایسے لوگوں کی قیادت کر رہے تھے ملا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ اگر وہ شراب نوشی بند کر کے اقتدار میں رہ سکتے ہیں تو وہ شراب نوشی بند کر دیں گے۔ ایسے ہی لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر انہوں نے کراچی کے ساحل پر زیر تعمیر ایک بہت بڑے قمار خانے کی تعمیر رکوا دی، اس قمار خانے کا وہیل نما نا مکمل ڈھانچہ آج تک ذوالفقار علی بھٹو کے خواب پریشاں کے ویراں نشاں کے طور پر موجود ہے ، وہ مے نوشی چھوڑنے کو تیار تھے کیونکہ ان کے نزدیک رقص اقتدار کی لذت، مے نوشی سے کہیں زیادہ لذیذ تھی، ان کے نزدیک اقتدار میں رہنا سب سے زیادہ اہم چیز تھا، ان کا خیال تھا کہ وہ شراب نوشی بند کر کے ملائوں کے دل جیت لیں گے ، اور ملا انھیں بر سر اقتدار رہنے دیں گے بالکل ویسے ہی جیسے سیہون شریف میں سخی شہباز قلندر کی درگاہ پر سنہری دروازہ چڑھا کر ان کا خیال تھا کہ ان کے گناہ دھل جائیں گے‘‘۔
ایوب خان کے ساتھ بھی اس سے ملتا جلتا ماجرا پیش آیا، بجائے اس کے کہ وہ اپنے بنائی ہوئے آئین اور اپنے بنائے ہوئے اداروں کی حفاظت کرتے ، انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ بالواسطہ انتخابات کے جامع نظام کو منہدم کر دیا۔ اور یہ سب انہوں نے اس امید پر کیا کہ شاید لوگ مطمئن ہو جائیں اور ان کا اقتدار بچ جائے لیکن ایسا نہ ہونا تھا، نہ ہوا۔ اگر میں سر ونسٹن چرچل کے الفاظ مستعار لیکر ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کروں تو میں کہوں گا کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو چیستاں کے اندر لپیٹی پہیلی میں چھپا معمہ تھے‘‘ وہ مجسم برقی قوت تھا، وہ ایک بگولہ تھا، گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ، گھڑی میں دیو قامت، عظیم المرتبت اور ولولہ انگیز اور گھڑی میں پستہ قد ، گھٹیا اور تنگدل۔ رابرٹ ڈیلک نے امریکی صدر لنڈن جانسن کے بارے میں کہا ہے : ’’ وہ ظالم ، جابر ، کندہ ناتراش، بے حس، جنونی اور گھٹیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مہربان تھا، شائستہ تھا اور اپنے مزاح سے لوگوں کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر سکتا تھا‘‘۔ میرے نزدیک بالکل یہی حال ذوالفقار علی بھٹو کا بھی تھا‘‘۔