اسلام آباد ہائی کورٹ کا صائب فیصلہ
تحریر : امتیاز عاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے عدلیہ عوام کی آخری امید ہے۔ عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام الناس کو ریاستی جبر کے خلاف انصاف مہیا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی جماعتوں کے مقدمات کی بھر مار نے غریب عوام کو حصول انصاف سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی یہ پرانی تجویز تھی سیاسی مقدمات کے تصفیہ کے لئے آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔ موجودہ حکومت اب آئینی عدالتوں کے قیام کے لئے سنجیدہ لگتی ہے اللہ کرے اس حکومت کے دور میں آئینی عدالتوں کا قیام عمل میں آجائے تو عام لوگوں کے مقدمات کا جلد سے جلد فیصلہ ممکن ہو سکے گا ورنہ جیسا کہ لاکھوں مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں پڑے ہیں روزبروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ موجودہ سیاسی حالات میں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ جس رفتار سے عمران خان کے خلاف مقدمات قائم ہو رہے ہیں جیل سے ان کی رہائی ناممکن ہے۔ خان کو بڑی شکایت تھی ان سے ملنے والوں کو ملاقات نہیں کرنی دی جاتی۔ جیل مینوئل کے مطابق حوالایتوں کی روزانہ ملاقات پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں البتہ قیدیوں کے لئے ہفتہ میں دن جیل انتظامیہ مقرر کرتی ہے۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق ملاقاتی اپنا قومی شناختی کارڈ دیکھا کر جیل کے احاطہ میں داخل ہو کر جیل ملازمین کو قیدی کا نام لکھواتے ہیں۔ اگر ان کے پاس قیدی کو دینے کے لئے سامان ہو تو جیل ملازمین سامان کی تلاشی لے کر اسے سکینگ مشین پر بھیج دیتے ہیں جس کے بعد سامان کو جیل کی ڈھیوڑی سے اندر بھیج دیا جاتا ہے جہاں ایک اور کائونٹر پر سامان کی جانچ پڑتال کے بعد قیدیوں اور حوالاتیوں کو ان کا سامان بھیج دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جناب سردار اعجاز اسحاق خان جن کا تعلق میرے آبائی گائوں کلر سیداں سے ہے ۔ ان کے والد محترم ممتاز قانون دان جناب سردار اسحاق خان مرحوم میرے محسن تھے۔ سردار اعجاز اسحاق خان کے چچا جسٹس سردار طارق مسعود خان سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں اور اب دوبارہ ایڈہاک جج کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سینٹرل جیل اڈیالہ کے سپرنٹنڈنٹ نے عدالت کو بتایا عمران خان سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست وقفہ وقفہ سے آنے سے کنفوژن پیدا ہوتا ہے ۔ جسٹس سردار اعجاز خان نے عمران خان کی شکایت کا چند منٹ میں تصفیہ کر دیا۔ جناب جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو ہدایت کی عمران خان کی طرف سے جن ملاقاتیوں کے ناموں کی فہرست آئے انہیں ملاقات کی اجازت دے دی جائے۔ ہمیں یاد ہے جن دنوں مسلم لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سینٹرل جیل اڈیالہ میں تھے جن ناموں کی فہرست نواز شریف کی طرف سے فراہم کی جاتی تھی صرف انہی لوگوں کو ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی۔ گویا اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک صائب فیصلہ کرکے جیل انتظامیہ اور عمران خان دونوں کے لئے آسانی کر دی۔ دراصل قید و بند میں رہنے والے ہر روز یہ امید لگائے ہوتے ہیں ان سے کوئی نہ کوئی ملاقات کرنے والا آئے گا۔ عمران خان کا معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے۔ ایک مخصوص احاطہ میں قید سابق وزیراعظم نے کبھی سوچا نہیں ہوگا اسے قید خانے میں رہنا پڑے گا۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اسی عمران نے انتخابی مہم میں کرپشن کرنے والوں کا احتساب کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ ملک و قوم کو لوٹنے والوں کو محاسبہ تو نہ کر سکا البتہ خود جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ ایف آئی اے نے عمران خان کے خلاف عوام کو حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا نیا مقدمہ درج کر لیا ہے جس کے بعد ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا اس کے خلاف مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلے گا۔ خبروں کے مطابق عمران خان نے اپنے وکلاء سے مشاورت کئے بغیر ایف آئی اے کی ٹیم کے ساتھ شامل تفتیش ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک میں احتساب مذاق بن گیا ہے۔ چلیں احتساب میں کسی کے خلاف کوئی مقدمہ بن جائے تو اس کا مقررہ مدت میں فیصلہ ہونا چاہیے۔ عجیب تماشا ہے ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پرکھنے کے لئے انسپکشن جج مقرر کئے جانے کے باوجود ماتحت عدالتوں کو مقدمہ کے فیصلوں میں تاخیر ہونے پر پوچھا نہیں جاتا۔ عمران خان سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اپنے دور میں احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے جو اس امر کا عکاس ہے اس کے ساتھ کام کرنے والی قانونی ٹیم ناتجربہ کار اور نااہل تھی۔ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ایک روز ایک نجی چینل پر عمران خان کا کہنا تھا اسے احتساب سے منع کر دیا گیا تھا۔ اے کاش عمران خان اقتدار میں ہوتے ہوئے ان قوتوں کی نشاندہی کر دیتے جنہوں نے اسے احتساب کرنے سے روکا تھا۔ سیاسی رہنمائوں کا المیہ ہے اقتدار میں رہ کر بعض باتوں کو مخفی رکھتے ہیں جب اقتدار سے ہٹ جائیں تو ایسی باتوں کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے عمران خان کی کمزور ترین حکومت تھی جس میں وزیراعظم کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ عمران خان طاقت ور وزیراعظم ہوتے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم لگواتے ۔ ان کی قانونی ٹیم اس قدر نااہل تھی وہ ملزمان کے خلاف فرد جرم لگوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ چنانچہ اقتدار میں آنے کے بعد ملزمان نے نیب قوانین میں ترمیم کرکے اپنے خلاف مقدمہ ختم کرا لیا۔ جن قوموں میں بلاامتیاز احتساب نہیں ہوتا وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ آج ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے ہمارا ملک مقروض ترین ملک ہے۔ اشرافیہ کی موجیں لگی ہیں غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے در بدر ہیں۔ شہباز شریف کے وزارت اعلیٰ کے دور میں پیرول پر قیدیوں کی رہائی بڑی تیزی سے ہوتی رہی، عمران خان کے پسندیدہ وزیراعلی عثمان بزدار کے دور میں پیرول پر رہائی کا اختیار سیکرٹری داخلہ سے لے کر کابینہ کی کمیٹی کو دے دیا، جس کے بعد سے اب تک پیرول پر رہائی صرف انہی قیدیوں کی دی جا رہی ہے جن کی رہائی میں چند ماہ باقی رہ جاتے ہیں۔ جس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی ملاقات کا فیصلہ چند منٹ میں کر دیا اللہ کرے ہماری عدالتیں اسی تیزی سے عوام کو انصاف فراہم کریں تو عوام کو جلد انصاف کی فراہمی یقینی ہے۔