بلاگ

جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا

منزہ انوار

ایک جانب 55 انڈین فوجی تھے اور دوسری جانب ایک پاکستانی فوجی پائلٹ۔ یہ سنہ 1965 میں ستمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔

انڈین فوجیوں کے ہاتھوں میں بلکل نئے ہتھیار تھے اور پاکستانی فوجی پائلٹ کے پاس چمکتی ہوئی وردی اور ایک چھڑی۔

ایسے میں غلطی سے ایک انڈین چوکی پر اترنے والے پاکستانی فوجی افسر اس سوچ میں مبتلا تھے کہ اپنی جان کیسے بچائیں۔

تب پاکستانی فضائیہ کے طیاروں اور ذہن میں آنے والے ایک اچھوتے خیال نے ان کی مدد کی اور عسکری تاریخ کا ایک انہونا واقعہ ہوا۔

کچھ ہی دیر میں یہ 55 انڈین فوجی ایک قطار میں پاکستان کی جانب رواں دواں تھے اور میلوں پر محیط فاصلہ کئی گھنٹوں کے پیدل مارچ کے بعد طے کر کے جنگی قیدی بنے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فوجی افسر بعد میں پاکستان کے دو وزرائے اعظم کے انتہائی قریبی مشیر رہے اور پاکستان کی داخلہ پالیسی پر اثر انداز ہوئے۔

یہ فوجی افسر کون تھے؟ یہ جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کیسے ہوا اور انڈین فوجیوں نے ایک نہتے پاکستانی افسر کے سامنے ہتھیار کیوں پھینکے؟

’گرینڈ سلیم‘ اور اکھنور کی جنگ

پاکستان کی عسکری ایوی ایشن کی سرکاری تاریخ پر لکھی کتاب ’ہسٹری آف پاکستان آرمی ایویشن 1947 ٹو 2007‘ میں میجر (ریٹائرڈ) عامر مشتاق چیمہ لکھتے ہیں کہ یہ اگست 1965 کے آخری ایام تھے جب آپریشن جبرالٹر میں ناکامی کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت نے ’آپریشن گرینڈ سلیم‘ شروع کیا۔

اس آپریشن کا مقصد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔

نصیر اللہ بابر اس زمانے میں تھری آرمی ایویشن سکواڈرن کا حصہ تھے اور دھمیال (راولپنڈی) میں تعینات تھے۔ اس سکواڈرن کا بنیادی کام کشمیر پر نظر رکھنا تھا۔

میجر (ریٹائرڈ) آغا ہمایوں امین کی کتاب ’پاکستان آرمی تھرو دا آئیز آف پاکستانی جنرلز‘ میں بھی اس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

اس کتاب میں نصیر اللہ بابر کے انٹرویو کا حوالے دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وہ یکم ستمبر 1965 کو میں سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر اسحاق کو راولپنڈی سے مری اور پھر راولاکوٹ لے کر گئے۔ ایک اور ہیلی کاپٹر (او ایچ 13) میں ان کے ساتھ تین پائلٹ بھی پرواز کر رہے تھے۔

’مری پہنچنے پر پتا چلا کہ انڈیا نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں چھمب پر حملہ کر دیا ہے۔‘ نصیر اللہ بابر کے مطابق انھوں نے تجویز دی کہ چھمب کا دورہ کرنا چاہیے۔

نصیر اللہ بابر نے آغا ہمایوں کو دیے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی کوئی تیاری نہیں تھی۔۔ ان کے پاس نہ تو ہتھیار تھے اور نہ ہی نقشے۔ نقشوں سے مدد کے بغیر چھمب کی تلاش آسان نہ تھی اور اسی لیے بریگیڈیئر اسحاق نے واپسی کا فیصلہ کیا۔

اب ایک ہیلی کاپٹر میں تین ہی پائلٹ رہ گئے تھے جن میں لیفٹینٹ کرنل نصیر اللہ بابر، میجر لطیف اعوان اور کیپٹن اکرم شامل تھے۔

شام ہو چکی تھی جب کرنل نصیراللہ بابر نے ایک چیک پوسٹ دیکھی تو ساتھی پائلٹ کو لینڈ کرنے کی ہدایت دی۔ لیکن یہ ایک ویران چیک پوسٹ تھی جہاں کوئی فوجی نہیں تھا۔

اتنے میں ریڈیو سیٹ پر اطلاع ملی کہ پاکستانی فوج کے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر عبد الحمید خان ایک حملے کی زد میں آئے ہیں۔

کرنل نصیر اللہ بابر بنا کسی سمت کے کچھ دیر تک پرواز کرتے رہے تاہم انھیں بریگیڈ کمانڈر پر حملے کا مقام معلوم نہ ہو سکا۔

مگر اسی دوران انھیں ایک اور پوسٹ نظر آئی تو میجر اعوان نے کرنل نصیر اللہ بابر کو بتایا کہ وہاں کچھ لوگ موجود ہیں۔

یہ سوچتے ہوئے کہ شاید ان میں کوئی زخمی ہو جسے مدد کی ضرورت ہو، کرنل نصیر نے ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کو کہا۔ زمین پر اترتے ہی کرنل نصیر اللہ بابر اس پوسٹ کی جانب چل پڑے۔

نصیر اللہ بابر دراصل یہ سوچ کر بھی زمین پر اترے تھے کہ مخالف فوج کے خالی مورچے سے شاید ان کو ہتھیار مل جائیں جن کو وہ یادگار کے طور پر ساتھ لے جا سکیں۔ ہتھیار تو تھے لیکن مورچہ خالی نہ تھا۔

انڈین فوجی گولی چلا دیتے تو کہانی وہیں ختم ہو جاتی‘

قریب پہنچنے پر انھیں معلوم ہوا کہ یہ ایک ہلکی مشین گن کا مورچہ تھا لیکن انڈین فوج کا جس میں تین سکھ فوجی موجود تھے اور کرنل بابر کو حیران و پریشان نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کرنل بابر کے الفظ کے مطابق ’اگر سکھوں نے ٹرگر دبا دیا ہوتا تو کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔‘

اب یہ ’سوینئیر ہنٹنگ‘ نہیں رہی تھی بلکہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی بقا کا سوال تھا۔۔۔ یہ دشمن کی چیک پوسٹ تھی اور ان کی جان خطرے میں تھی۔

میجر ہمایوں امین لکھتے ہیں کہ لیفٹینٹ کرنل نصیر اللہ بابر اس روز مکمل یونیفارم میں تھے اور ان کے ہاتھ میں چھڑی بھی تھی۔

اس موقع پر ان کی وردی، رینک اور خوش قسمتی کام آنے والی تھی۔

’سکھ سپاہی نئی رائفلیں پکڑے باہر نکل آئے‘

نصیر اللہ بابر تقسیم سے قبل انڈیا کے شہر دہرا دون میں رہ چکے تھے اور ان کے کچھ بہترین دوست سکھ تھے۔

انھوں نے انڈین فوجیوں سے پنجابی میں کرنل سکھونت سنگھ کے بارے میں پوچھا تو وہ چونکے۔

نصیر اللہ بابر نے میجر (ریٹائرڈ) عامر مشتاق چیمہ کو بتایا تھا کہ ’اس سے پہلے کہ وہ تینوں ذہنی طور پر صورتحال کا اندازہ لگاتے، میں نے انھیں بتایا کہ آپ کی فورسز نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور قبائلی لشکر راستے میں ہے لیکن چونکہ میں آپ کے افسران کو جانتا ہوں اور پہلے ایک سکھ بٹالین کے ساتھ کام کر چکا ہوں، جو کہ جھوٹ تھا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ہتھیار ڈال دیں تاکہ میں آپ کی حفاظت کو یقینی بنا سکوں۔‘

تب ایک انڈین سپاہی نے انھیں مرکزی پوسٹ کا بتایا جو اس مقام سے چند سو گز پیچھے تھی اور اسی وقت کچھ اور انڈین سپاہی نئی رائفلیں لہراتے باہر نکل آئے۔

’یہ سب ٹکٹکی باندھے تجسس بھری نظروں سے ہیلی کاپٹر کو دیکھ رہے تھے جس کے پنکھے ابھی بھی چل رہے تھے۔‘

اسی لمحے انھیں دو انڈین لڑاکا طیارے نظر آئے جو پوسٹ کی طرف آ رہے تھے (شاید انھوں نے ہیلی کاپٹر کو دیکھ لیا تھا) اور وہ حملہ کرنے کے لیے آ رہے تھے۔

میجر امین لکھتے ہیں کہ ’بطور پائلٹ کرنل نصیر نے دیکھ لیا تھا کہ ان طیاروں نے حملے سے قبل فارمیشن بنائی ہے۔ انھوں نے فوراً میجر اعوان کو کہا کہ آپ ہیلی لے کر یہاں سے نکلیں۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔‘

لیکن اسی دوران پاکستانی فضائیہ کے طیارے بھی پہنچے تو کرنل بابر جانتے تھے کہ ان کے مستقبل کا انحصار اب اس ’ڈاگ فائٹ‘ فضائی جھڑپ کے نتیجے پر ہے۔

’کیا آپ کے ساتھی میرے کمانڈنگ آفیسر کو گولی مارنے کی جرأت کریں گے؟‘

پاکستانی سیبر طیاروں نے انڈین لڑاکا طیاروں کو مار گرایا جن کا ملبہ پوسٹ کے قریب گرتے ہی انڈین فوجیوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔

عامر مشتاق چیمہ لکھتے ہیں کہ کرنل بابر کے مطابق ’اگر نتیجہ اس کے برعکس ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں اسی جگہ گولی مار دیتے۔‘

کرنل بابر کو ایک اور فائدہ بھی حاصل تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ انڈین فوجیوں کے کمپنی کمانڈر میجر ناگی سپلائی لینے گئے ہوئے تھے اور پوسٹ پر کوئی سینئر انڈین افسر موجود نہ تھا اور چند انڈین فوجی زخمی حالت میں تھے۔

میجر ہمایوں لکھتے ہیں کہ ’کرنل بابر کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ یہ فائیو سکھ لائٹ انفنٹری کی کمپنی پوسٹ تھی جس میں 106 ملی میٹر کی ریکوئل لیس رائفل، ایک مارٹر اور سپورٹ بٹالین سے درمیانے مشین گن کی ڈٹچمنٹ شامل تھی۔

’انھوں نے وہاں موجود فوجیوں سے کہا کہ ’اپنے ہتھیاروں کو دیوار پر رکھ کر باہر نکل آئیں۔‘

جب وہ سب باہر آ گئے تو کرنل بابر نے جونیئر کمیشنڈ آفیسر (جے سی او) سے کہا کہ ’انھیں صفوں میں کھڑا کریں‘ پھر دو جوانوں سے سب کی رائفلیں اٹھانے کا کہا۔

اس کے بعد انھوں نے کیپٹن اکرم سے کہا کہ زخمی فوجیوں کو اپنے علاقے کی طرف لے جائیں۔ وہ کرنل بابر کو اکیلا چھوڑنے کا سوچ کر ہچکچا رہے تھے تاہم انھوں نے حکم کی تعمیل کی۔

ہسٹری آف پاکستان آرمی ایویشن میں لکھا ہے کہ کیپٹن اکرم نے بعد میں انڈین فوجیوں سے پوچھا ’کیا آپ کے ساتھی میرے کمانڈنگ آفیسر کو گولی مارنے کی جرأت کریں گے؟‘

ان کا جواب تھا ’نہیں‘۔

مگر اب شام ڈھل چکی تھی لیکن خوش قسمتی سے اس رات چاند پوری طرح چمک رہا تھا۔

نصیر اللہ بابر انڈین فوجیوں کی قطار کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور ایک مقام، جس کا نام پدھار ہے، پر پاکستانی فوج کے میس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

بابر نے میجر ہمایوں کو بتایا کہ ’جیسے ہی میں میس میں داخل ہوا اور بریگیڈیئر امجد چوہدری (کمانڈر کور آرٹلری) اور ان کے سٹاف کو سارا واقعہ سنایا تو انھوں نے میری بات پر یقین نہیں کیا اور خود دیکھنے باہر آئے۔‘

یہاں سے روانہ ہو کر صبح تقریباً 5 بجے وہ بھمبر پہنچے اور انڈین قیدیوں کو بریگیڈ ہیڈکوارٹرز کے حوالے کرنے کے بعد صبح 10 بجے ہیلی کاپٹر انھیں دو یادگاری جی-تھری رائفلوں کے ساتھ دھمیال واپس لایا جہاں کرنل اے بی اعوان ان کے منتظر تھے۔۔۔

انھوں نے اس مہم جوئی پر کرنل نصیر اللہ بابر کی ٹھیک ٹھاک سرزنش کی۔

’جنرل موسیٰ نے پوچھا کیا آپ نے آج کے اخبارات دیکھے ہیں؟‘

میجر عامر مشتاق لکھتے ہیں کہ جب قیدیوں سے تفتیش کی گئی تو انھوں نے واقعے کی تفصیلات بیان کیں۔

’جنرل ریاض حسین (جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تھے) نے صدر ایوب خان کو 2 ستمبر 1965 کی شام کو ایک بریفنگ میں اس کے متعلق اطلاع دی اور ان سے درخواست کی کہ اس واقعے کو اخبارات میں شائع کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ’ہمارے فوجیوں کا مورال بلند ہو سکے۔‘ نتیجتاً یہ واقعہ 4 ستمبر 1965 کو تمام اخبارات میں شائع ہوا۔

اسی دن لیفٹیننٹ کرنل بابر کھاریاں سٹرپ پر آرمی چیف جنرل موسیٰ کو لینے کے لیے موجود تھے جو راولپنڈی سے پہنچے تھے، تاکہ انھیں آگے کے علاقے میں لے جا سکیں۔

جنرل موسیٰ نے ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ نے آج کے اخبارات دیکھے ہیں؟‘

کرنل بابر نے نفی میں جواب دیا توجنرل موسی نے ان کو بتایا کہ اخبارات میں یہ کہانی شائع ہو چکی تھی۔ ’لیکن جنرل بختیار رانا نے ان کی سرزنش کی کہ فوج نے ان کی تربیت پر اتنی رقم خرچ کی ہے اور وہ ایسے غیر سنجیدہ کاموں میں ملوث ہو رہے ہیں۔‘

تاہم بعد میں انھیں اس کارروائی کے لیے ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔

فوج سے سیاست کا سفر، آپریشن بلیو فاکس اور طالبان کو بنانے میں کردار

نصیر اللہ بابر نے میجر جنرل کے رینک تک ترقی پائی تاہم 1974 میں انھوں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا اور سیاست میں شامل ہوئے۔

نصیر اللہ بابر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سنہ 1975-77 تک صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔

صحافی و انیکر حامد میر نے اپنے ایک کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ ’نصیر اللہ بابر نے میرے سامنے کئی بار اعتراف کیا کہ انھوں نے کئی معروف افغان جنگجوؤں جیسے احمد شاہ مسعود، برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار کو 1975 میں فرنٹیئر کور کے آئی جی کی حیثیت سے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر پیسے اور ہتھیار فراہم کیے تھے۔‘

سنہ 1977 میں بھٹو کی گرفتاری کے بعد بابر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور 1993 کے انتخاب میں نوشہرہ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار (1993-1996) میں وفاقی وزیر داخلہ تھے۔

نصیر اللہ بابر نے بینظیر بھٹو کی حکومت میں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف متنازعہ آپریشن بلیو فوکس کی نگرانی کی۔

ایک سابق پولیس افسر نے اس آپریشن کے حوالے سے بی بی سی کے لیے صحافی جعفر رضوی کو بتایا تھا کہ ’تب وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر نے قتل و غارت اور دہشتگردی کے خلاف بے دریغ اور بے رحمانہ آپریشن کرنے کے لیے وزیراعظم بینظیر بھٹّو سے مکمل فری ہینڈ لیا یعنی آزادانہ کام کرنے کی اجازت طلب کی۔‘

مبینہ طور پر طالبان کو بنانے میں بھی ان کا کردار رہا ہے۔ سنہ 2007 میں نصیر اللہ بابر پارٹی کی پالیسیوں سے اختلافات کی بنا پر پیپپلز پارٹی سے الگ ہو گئے تھے۔

وہ فالج کے عارضے میں مبتلا تھے اور پشاور کے فوجی ہسپتال سی ایم ایچ میں زیرِ علاج تھے جہاں جنوری 2011 میں ان کی وفات ہوئی۔

بشکریہ بی بی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button