کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
امتیاز عاصی
وطن عزیز میں ہر طرف آئی پی پیز کا شور و غوغا ہے۔ آئی پی پی پیز پر حکومتی نوازشات سے عوام بے خبر تھے۔ بھلا ہو عمران خان اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا جنہوں نے بجلی بنانے والے آئی پی پی پیز کی کارستیانوں سے لوگوں کو آگاہ کیا ورنہ عوام کی بلا جانے آئی پی پی پیز معاہدے کیا تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو کسی قسم کے معاہدے کی دستاویزات دکھانا معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ آئی پی پی پیز بارے اتنا شور ہوا وزارت پانی و بجلی کے سیکرٹری نے سینٹ کی کمیٹی کو معاہدے کی نقول دینے سے انکار کر دیا۔ تعجب ہے سیکرٹری پانی و بجلی نے آئی پی پیز معاہدوں کو دکھانے کے سوال پر یہ کہہ کر اتنے سادھے نہیں معاہدے کمیٹی کو دے دیں معاملے کو مزید مشکوک بنا دیا۔ جس اردو معاصر نے یہ خبر شائع کی اسی اخبار نے آئی پی پیز مالکان کو نوازنے کی کچھ تفصیلات شائع کیں ہیں جن کی رو سے ٹیکس فری معاہدوں میں سو فیصد منافع ڈالر میں ادا کیا جاتا ہے اور آئی پی پیز کو پانچ کرنسیوں میں کاروبار کی اجازت ہے۔ ملک میں کسی قسم کی تبدیلی کی صورت میں معاہدوں میں کسی قسم کی تبدیلی کی گارنٹی دی گئی ہے۔ رقم کا انتظام سٹیٹ بینک کرے گا اور انشورنس کی ذمہ داری حکومت ہو گی۔ آئی پی پیز کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے وہ چاہیں تو ڈالر، پائونڈ، یورو اور جاپانی ین میں کاروبار کر سکتی ہیں۔ کمپنیوں کو جب چاہیں جتنی کرنسی چاہیے سٹیٹ بینک سے لے سکتی ہیں، جبکہ کمپنیوں کے سرمائے کی انشورنس حکومت دے گی۔ معاہدے کے مطابق پاور پلانٹس کو ایندھن کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ ٹیکس کے ٹیرف میں کسی قسم کی تبدیلی کا آئی پی پیز پر اثر نہیں پڑے گا۔ آئی پی پیز کے مالکان کو فارن کرنسی کی ترسیل میں حکومت مدد فراہم کرتی ہے۔ حکومت پاکستان سرمایہ کاروں کو قانونی، سیاسی اور مارکیٹ کے رسک سے بھی تحفظ مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ آئی پی پیز کے غیر ملکی عملے کو بغیر کسی مشکلات کے ویزوں کی فراہمی ان معاہدوں کا حصہ ہے۔ عجیب تماشا ہے آئی پی پیز سے معاہدے 25سے 30سالوں کیلئے ہوئے ہیں، جس میں پہلے دس سالوں میں آئی پی پیز اپنی
لاگت منافع کے ساتھ پوری کر لی اور باقی مدت میں پیداواری نرخ کم کرنے تھے لیکن کم ہونے کی بجائے بڑھائے گئے۔ آئی پی پیز کے سو فیصد منافع کو یقینی بنانے کے لئے مقامی اور بین الاقوامی مہنگائی کو ٹیرف میں شامل کیا گیا۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق پاور جنرنشن یا ٹرانسمیشن کوئی منصوبہ لگاتی ہے اس معاہدے کے ڈاکومنٹس ہوتے ہیں جن کو سکیورٹی ایکس چینج ڈاکومنٹس ( ایس پی ڈی) کا نام دیا جاتا ہے جس کے بعد حکومت کی طرف سے پرائیویٹ انفرا سٹرکچر بورڈ ان پر دستخط کرتا ہے۔ ضابطے کی دیگر کارروائی مکمل کرنے کے بعد سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کمپنیوں کے ساتھ پاور پرچیزنگ معاہدے پر دستخط کرتا ہے۔ پاور پلانٹ تھرمل ہو تو حکومت پاکستان ان کے ساتھ فیول سپلائی ایگریمنٹ بھی کرتا ہے جس کے تحت ایندھن فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہائیڈل پاور پراجیکٹ میں صوبوں یا حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ پانی کے استعمال کا منصوبہ دستخط کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب بھی کسی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں تو مختلف وزارتوں، سٹیک ہولڈرز، محکموں کے ساتھ ڈسکشن ہوتی ہے جس کے بعد ای سی سی اور کابینہ سے اس کی منظوری لی جاتی ہے۔ اس طرح منصوبہ لگانے والوں کو نیپرا، این ٹی ڈی سی، سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور دیگر محکموں سے منظوری لینا لازمی ہوتا ہے۔ خبر کے مطابق ٹیکسز اور ڈیوٹیز میں سہولتوں سے آئی پی پیز نے بارہ سو ارب روپے کا فائدہ اٹھایا ہے جب کرنسی میں سہولیات سے آئی پی پیز نے مختلف کرنسیاں استعمال کیں لیکن وصولیاں ڈالروں میں لیں اور انجینئرنگ پراجیکٹ لاگت اور مرمت آپریشنز میں سہولتیں دینے سے لاگت اور مرمت کا من مانا تخمینہ لگایا گیا۔1994ء سے اب
تک آئی پی پیز پندرہ ہزار ارب روپے کپیسٹی پے منٹ وصول کر چکے ہیں۔ آئی پی پیز نے سو فیصد منافع کو یقینی بنانے کے لئے مقامی اور بین الاقوامی مہنگائی کو بھی ٹیرف میں شامل کیا۔ دراصل آئی پی پیز سے معاہدے کرنے والوں نے ملک کے مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاہدے کئے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے ملکی مفاد کو دائو پر لگایا۔ حقیقت میں دیکھا جائے آئی پی پیز کے معاملات کی اعلیٰ سطح پر انکوائری ہونی چاہیے اور معاہدوں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کے ذمہ دارا ن کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔ حیرت ہے سیکرٹری پانی اور بجلی نے قائمہ کمیٹی کا معاہدوں کی دستاویزات دکھانے سے انکار کر دیا حالانکہ پبلک کے نمائندہ ہونے کے حوالے سے کمیٹی کے ارکان دفاعی امور کے معاہدوں کے سوا ہر قسم کے معاہدوں کی جانچ پڑتال کے مجاز ہیں۔ آئی پی پیز کا معاملہ اب چل پڑا ہے لہذا موجودہ حکومت کو ملکی مفاد عزیز ہے تو آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات سے عوام کا آگاہ کیا جانا ضروری ہے ورنہ عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے آئی پی پیز معاہدے مبینہ ملی بھگت سے ہوئے اور کمپنیوں اور ذمہ داروں نے مل کر قومی خزانے کو لوٹا ہے۔یہ سیاست دان تھے جنہوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی اور ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ بنے رہے۔ کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جاتا یا ایران سے گیس آجاتی ہمارے ملک میں بجلی کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو جاتا جس کے بعد ہمیں کسی آئی پی پیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن کئی سال پہلے بچھا دی اور ہم امریکی پابندیوں میں جکڑئے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں کا یہ عالم ہے وہ پائپ لائن کے سلسلے میں امریکی حکام سے بات چیت نہیں کر سکتے ان کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ تعجب ہے برسوں پہلے آئی پی پیز کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں کا ابھی تک عوام سے مخفی رکھا ہوا ہے ۔ آخر کچھ تو ہے جس کی دہ داری ہے ورنہ عوام سے آئی پی پیز معاہدوں کو خفیہ رکھنے کا جواز نہیں۔