ناگزیر
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
خوف کے سائے میں آزادی کی سانسیں لینا کسی غلامی سے کم نہیں بالخصوص جب جنگ مسلط کردی جائے اس پس منظر میں میدان میں نہ اترنا کمزوری کی دلیل ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس خوف کے باعث طاقتور کی طاقت کا نشہ دوآتشہ ہوجاتا ہے اور وہ ہر محاذ پر اپنی پیش قدمی جاری رکھتا ہے، کوئی بھی قانون اس کے ہاتھ روکنے میں ناکام نظر آتا ہے ۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت مسلم دنیا اور اسرائیل کی دکھائی دے رہی ہے کہ مسلم دنیا میں فقط ایران اس وقت اسرائیل کے ساتھ برسر پیکار نظر آتا ہے جبکہ دیگر مسلم دنیا ایک خوف کا شکار دکھائی دیتی ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح اسرائیلی جارحیت کو میز پر روکنے میں کامیاب ہو جائے۔ گزشتہ دس ماہ سے اسرائیلی جارحیت نے نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں ببانگ دہل بکھیری ہیں بلکہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے باوجود، دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کی بربریت کو روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ نیتن یاہو، کو دنیا بھر سے لعن طعن ہو رہی ہے حتی کہ بظاہر اس کے حمایتی بھی اس کے لتے لیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن نیتن یاہو پر کوئی بھی بات اثر کرتی نظر نہیں آتی اور اسرائیلی جارحیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ غزہ میں نسل کشی کرتے کرتے اسرائیل کی ہمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ پڑوسی ریاستوں کے علاوہ ایران کی خودمختاری و سالمیت پر بھی بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ دیگر مسلم ممالک اس پر عملا کچھ بھی کرنے سے دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد ہو یا امن معاہدے کی کوششیں ہوں، اسرائیل ہر معاملے میں اولا اقرار کرتا ہے لیکن اپنی جارحیت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آنے دیتا بلکہ ان مذاکرات کی آڑ میں غزہ پر ظلم و ستم میں تیزی لے آتا ہے اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کو رزق خاک بنانے میں دریغ نہیں کر رہا۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا عورتیں کیا مریض، کیا سکول کیا ہسپتال، کیا عبادت گاہیں کیا شہری آبادی، کوئی ایسی جگہ نہیں بچی جہاں اسرائیل نے گزشتہ دس ماہ میں داستان بربریت رقم نہیں کی؟ اس بربریت و ظلم و ستم کی انتہا کے باوجود نہ اپنے اغواء شدگان کو بازیاب کروا سکا ہے اور نہ ہی فلسطینی مجاہدوں کے حوصلوں کو پست کر سکا ہے، فلسطینی مجاہد یکے بعد دیگرے، اپنے کئی ایک اہم رہنماؤں کی شہادت پیش کرنے کے باوجود خم ٹھونک کر میدان جنگ میں کھڑے ہیں اور اسرائیلی طاقت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اسرائیل کی یہ بھرپور کوشش ہے کہ اس جنگ کو اپنی سرحدوں سے باہر لے جائے تا کہ کسی طور ہی سہی اس کی ساکھ کا بھرم باقی رہ جائے کہ وہ صرف فلسطین کے ساتھ برسرپیکار نہیں تھا بلکہ اسے مسلم دنیا کے ساتھ جنگ کا سامنا تھا، جس میں وہ یقینی طور پر کامیاب اور سچا ٹھہرایا جائے گا کہ مغربی طاقتیں اور اسرائیل کے پشت پناہ اس صورتحال میں اسرائیل کے مؤقف کو ہی اہمیت دیتے ہوئے، اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
مفادات کی اس جنگ میں یہ نہ صرف اسرائیل بلکہ دیگر عالمی طاقتوں کے لئے بھی ایک نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں ہو گا اگر مسلم دنیا سے کوئی ایک ملک بھی اس جنگ میں کود جاتا ہے خواہ اس میں تمام تر قصور اور انگیخت کا باعث اسرائیل بذات خود ہو۔ اس وقت اسرائیل اپنی انہی کوششوں میں مصروف دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم دنیا میں صرف ایران اس وقت وہ ملک ہے جس کو اسرائیل مسلسل انگیخت کر رہا ہے کہ کسی طرح ایران اس جنگ میں اتر آئے تا کہ اسرائیل کو منہ چھپانے کے لئے بہانہ میسر ہو،اس مقصد کے لئے اسرائیل کبھی اس کے جنرل کو نشانہ بناتا ہے، کبھی ایران کے جوہری سائنسدان کو رزق بناتا ہے کبھی شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرتا ہے ،کبھی اس کے صدر کو ابدی نیند سلادیتا ہے اور اب تو حد ہو گئی کہ ایران میں آئے ہوئے مہمانوں کو بھی نہیں بخش رہا اور ایران کے فلسطین کے ساتھ مضبوط تعلقات پر کاری وار کردیتا ہے ۔ اس سب کے جواب میں ایران کو ،جوابی کارروائی نہ کرنے کی خاطر دنیا کی جانب سے شدید دباؤ میں لایاجاتا ہے البتہ اشک شوئی کی خاطر ایران کو محدود و بے ضرر سا جواب دینے کی اجازت ملتی ہے،ایسی اجازت کہ ایران کے جوابی حملے کا قبل ازوقت اسرائیل کو علم ہو،تحفظ کے تمام اقدامات اٹھائے جا چکے ہوںاور نقصان برائے نام ہو،ایسی جوابی کارروائی کو اشک شوئی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ،اپنی شہادت سے قبل اپنے خاندان کے کئی ایک افراد کو اس جہاد میں اللہ کے سپرد کر چکے،اس راہ گزر کا انتخاب اسماعیل ہانیہ اور ان کے ساتھیوں نے آرزوئے شہادت کے ساتھ کیا اور سبحان اللہ کیا شہادت ہے کہ انتہائی دگر گوں حالات اور کسمپرسی میں اس کا قوی احتمال تھا، کسی ایک مرحلہ پر بھی،ان کی ثابت قدمی میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایران میں کیسے ہوئی، اس پر بہت سی باتیں ہو چکی ہیں اورزیادہ قرین قیاس یہی دکھائی دیتا ہے کہ انہیں ایران کے اندر انتہائی قریب سے ہی نشانہ بنایا گیا ہے،جس کی تحقیقات یقینا ایرانی ایجنسیاں کریں گی اور کر رہی ہیں،شنید ہے کہ کئی ایک سیکورٹی اہلکاروں کو گرفتار کرکے تحقیقات جاری ہیں لیکن جو نقصان اسماعیل ہنیہ جیسی توانا آواز کو خاموش کرنے پر ہو چکا ہے،اس کا ازالہ ہو سکے گا؟بہرکیف اسرائیل کی اس حرکت پر حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں اور ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان نے اس کا خاطر خواہ جواب دینے کا اعلان کر رکھا ہے، دیکھتے ہیں کہ اس کا کیا جواب ایران کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
عالمی طاقتوں کا ردعمل دیکھیں تو انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے واضح طور پر اعلان کیا جا چکا ہے کہ اگر ایران نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت میں کوئی بھی جوابی کارروائی کی، جارحیت کی تو امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ امریکی کھلی حمایت پر کسی کو نہ حیرت ہے اور نہ افسوس کہ مفادات کی جنگ میں امریکی کردار ساری دنیا کے سامنے ہے کہ بش کے دور میں لگائے جانے والے نعرے’’ کروسیڈ وار‘‘ کی تکمیل اسی صورت ممکن ہے کہ اسرائیل سے ایسی کارروائیاں ہوتی رہیں،مسلم دنیا میں اختلافات قائم رہیں،تنہا تنہا مسلم ممالک کو نشانہ بنایا جاتارہے اور مشرق وسطی میں پیوستہ خنجر سے اس خطے کو لہولہان رکھا جائے،اپنے زیردست رکھا جائے تاآنکہ یہاں سے اپنے مفادات کا حصول کشید کیا جاتا رہے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ایک طرف ایران کو انگیخت کر رہا ہے تو دوسری طرف لبنان میں بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے،درحقیقت اسرائیل کو یہ علم ہے کہ اس کے اطراف میں ایران نے اپنا حلقہ ترتیب دے رکھا ہے اور اسرائیل کواس وقت خطرہ بھی انہی مسلح گروہوں سے ہے۔ لبنان میں اپنی کارروائیوں کے باعث،دنیا بھر نے اپنے شہریوں کو فوری طور پر لبنان چھوڑنے کی ہدایت کر دی ہے ،جس سے یہ محسوس ہوتاہے کہ کسی بھی وقت اسرائیل و لبنان کی باقاعدہ جنگ کا آغاز متوقع ہے،اس صورت میں حوثی اور ایران خاموش رہیں گے؟شام میں موجود مسلح گروہ اس جنگ میں شامل ہوںگے؟امریکہ کا ردعمل کیا ہو گا کیا اس کی افواج اس جنگ میں شامل ہوجائیں گی؟امریکی افواج کے اس جنگ میں شامل ہونے پر کیا روس اورچین خاموش رہیں گے؟ترکی کا کیا کردار ہو گا؟سب سے بڑھ کر پاکستان کا کیا مؤقف ہو گا؟بھارت اس جنگ میں کیا ردعمل دے گا،کیا وہ اس سے لاتعلق رہ سکے گا یا پس پردہ اسرائیل کی مدد کرے گا؟بالفرض اگر بھارت اسرائیل کی مدد کرنا چاہے تو کس طرح کر سکے گا کہ اسرائیل تو اس صورت میں ہر طرف سے گھر چکا ہو گا؟کیا یمن،سعودی عرب کے بحری راستے سے یہ مدد ممکن ہو گی؟ یا افریقہ کے طویل راستے سے بھارت یہ مدد فراہم کرسکے گا کہ بحریہ روم تک بھی معاملات پیچیدہ ہو جائیں گے؟ اسرائیل نے جو حالات پیدا کر دئیے ہیں، اس کے پس منظر میں یہ سب بعید ازقیاس نہیں کہ کسی بھی وقت خطے میں یہ صورتحال دیکھنے کو مل سکتی ہے لیکن کیا واقعی جنگ ’’ ناگزیر‘‘ ہو چکی ہے یا ابھی بھی اسے روکا جا سکتا ہے؟؟؟