Column

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

صفدر علی حیدری

بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج رنگ لے آیا ، وزیراعظم حسینہ واجد نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ڈھاکہ میں اپنی رہائش گاہ سے بھارت پہنچ گئی ہیں۔ آرمی چیف نے 45منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی ۔
حسینہ واجد اور ان کی بہن ( وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ) سے فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت گئیں، حسینہ واجد تقریر ریکارڈ کرانا چاہتی تھی لیکن انہیں ایسا کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ مظاہرین نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا ، جنہیں قابو کرنے کے لیے سڑکوں پر پولیس اور فوج کی بڑی تعداد موجود رہی۔ شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے پر بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہرین جشن منا رہے ہیں، لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
76سالہ حسینہ واجد نے 2009سے بنگلہ دیش پر حکومت کی ہے اور انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھے انتخابات میں کسی مخالفت کے بغیر کامیابی حاصل کی تھی کیونکہ ملک کی مرکزی اپوزیشن جماعت نیشنل پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے بنگلہ دیش سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ حالات خاصے کشیدہ تھے ۔ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ بالآخر ایک ماہ سے جاری پر تشدد احتجاج کے بعد حسینہ واجد نے پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور وہ ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
جولائی میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک میں مجموعی طور پر 300سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ۔ ملک کی فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ ملک میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ہمارے ساتھ تعاون کریں ، ہم ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی سنگِ بنیاد رکھیں گے ۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ شیخ حسینہ واجد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اجلاس کے بعد بیان دیا تھا کہ مظاہرین طلبہ نہیں، بلکہ دہشتگرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتوار کو اطلاعات کے مطابق پورا شہر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین نے ایک ہسپتال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔ جس کے صورتحال بے قابو ہو گئی اور اتوار کو ہی کو شام چھ بجے سے کرفیو کا اعلان کیا گیا۔ اس سے قبل ہفتے کے روز طلبہ تحریک کے رہنمائوں میں شامل ناہید اسلام نے ڈھاکہ میں ہزاروں کے اجتماع میں خطاب کے دوران کہا کہ شیخ حسینہ کو صرف استعفیٰ ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ ان پر قتل و غارت ، لوٹ مار اور بدعنوانی کا مقدمہ ہونا چاہیے ۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں موبائل فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی تھی جو اب دوبارہ بحال کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی بعض کمپنیوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے احکامات موصول ہونے پر انہوں نے سروسز معطل کی تھیں۔ بنگلہ دیش میں مظاہرین نے اتوار سے شروع ہونے والی ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا کوئی بل ادا نہ کریں۔ طلبہ کی جانب سے تمام فیکٹریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیشِ نظر سابق آرمی چیفس اور آرمی افسران نے ملک کی مسلح افواج سے عام طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہ کرنے کی اپیل کی۔ ایک تحریری بیان میں سابق آرمی چیف اقبال کریم نے کہا کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے پہل کریں۔ محب وطن مسلح افواج کو طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہیں کرنا چاہیے ۔
بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ وقار الزمان نے احتجاجی مظاہرین کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ ہر قتل کی تحقیقات کرائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بات چیت کر چکا ہوں، میں نے سول سوسائٹی کے اراکین سے بات کی ہے۔ فوج ملک میں امن و امان برقرار رکھے گی۔
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں ، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے ، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں ۔5جون 2024کو بنگلہ ہائی کورٹ نے سنہ 2018 میں ختم کیا گیا کوٹہ سسٹم بحال کر دیا ۔ عدالتی فیصلہ کے بعد طلبہ کے احتجاج پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہو گیا۔ سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہل خانہ کے لیے مخصوص ہے جنہیں بنگلہ دیش میں ’’ آزادی کی جنگ کا ہیرو ‘‘ مانا جاتا ہے تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔ احتجاج میں شریک طلبہ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ انہیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’’ رضاکاروں‘‘ سے تشبیہ دی ۔
بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
ایسے میں ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ۔مظاہرین نے حکومت کو نو نکاتی مطالبات کی فہرست دی، پھر بھی احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ رک نہ سکا۔
اس تحریک کی شروعات کچھ یوں ہوئی کہ پہلے مرحلے پر طلبہ نے پر امن احتجاج کیا۔ ان کے مطابق ان طلبہ نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کی منصوبہ بندی کی تو پھر انہوں نے ایک منظم غیر سیاسی اتحاد بنایا مگر حکومت نے اسے ایک سیاسی چال سے تعبیر کیا۔ پرتشدد مظاہروں کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کا حکم دیا جس کے مطابق 1971ء کی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو ملازمتوں کا اب صرف پانچ فیصد حصہ ملے گا، تاہم مظاہرین نے مارے جانے والے طلبہ کو انصاف ملنے تک ملک گیر مکمل شٹر ڈائون ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ حکومت نے مطالبات تسلیم نہیں کیے اور اس کے بجائے احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائیاں شروع کر دیں اور یوں ہر روز چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ، جن میں متعدد لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ اتوار کو صورتحال زیادہ اس وجہ سے خراب ہوئی کہ حکومتی جماعت عوامی لیگ نے اپنی طلبہ تنظیم ’’ بنگلہ دیش چھاترو لیگ‘‘ کو میدان میں اتارا اور پھر پرتشدد مظاہروں میں متعدد لوگ ہلاک ہو گئے ۔جب کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو حکومت نے ان مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کی۔ بظاہر یہ مطالبات تسلیم کرنے کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تو اس کے بعد بھی کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب حکومت اور سکیورٹی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی ہو۔ ہر روز ہلاکتوں کی خبروں اور گرفتاریوں کے سلسلے نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تقریباً 10ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ گولیاں برس رہی ہیں اور وہ مر رہے ہیں تو وہ حکومت کے خلاف ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہماری زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اب لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوں یا نہ ہوں یہ بعد کی بات ہے، مگر پہلے وزیراعظم کو گھر جانا ہوگا۔
یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے علاوہ گزشتہ 15سال کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کے لیے آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 15سال میں 80سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں، لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔ بظاہر حکومت اس سارے معاملے کو سیاسی رنگ دینا چاہتی اور یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ یہ طلبہ کے کوٹہ سسٹم سے زیادہ حکومت کے خلاف ایک سازش تھی۔ جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ حکومت نے اس بات کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ طلبہ کے حقیقی مطالبات تھے۔
حسینہ واجد بہت حد تک آمرانہ طرزِ حکومت کو اپنا رہی تھیں اور حکومت پر اختلاف رائے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے لیکن حکومتی وزرا ان الزامات کی تردید کرتے تھے۔
شیخ حسینہ کا استعفیٰ ایسے وقت میں آیا جب حکومت کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک شدت اختیار کر چکی تھی۔ شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دینے کے بعد بھارت پہنچ گئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ وہ لندن روانہ ہو سکتی ہیں ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کا استعفیٰ اگرچہ طلبہ کے حالیہ احتجاج کا نتیجہ ہے۔ لیکن جنوری 2024میں الیکشن کے بعد ہی سے بنگلہ دیش کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا۔ انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں کے رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا اور انکی انتخابی مہم کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئی تھیں۔
عالمی مبصرین اور اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن پراسس کی شفافیت پر بھی کئی سوالات اٹھائے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
بے روزگاری کے ساتھ ساتھ سرکاری بھرتیوں میں بڑے پیمانے پر بی لگام کرپشن اور بے ضابطگیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک انتخابی نتائج پر پائی جانے والی بے چینی اور طلبہ کے احتجاج نے وہ حالات پیدا کیے جس کے باعث شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار بھی ملک کی وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنا اقتدار برقرار نہیں رکھ سکیں۔
اس میں دو رائے نہیں کی ان کی رخصتی پر عوام کی اکثریت خوش ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس حادثے کو وقت نے برسوں پالا ہے اس سے بنگلہ دیشی قوم کو اس سے فائدہ پہنچے گا یا نقصان ، اس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button