جسٹس اعجاز الاحسن کیوں مستعفی ہوئے؟ تہلکہ انگیز کہانی

جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفی’ کے پیچھے کی کہانی سامنے آنے لگی ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق مستعفی جج کو خطرہ تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ان کیخلاف مبینہ طور پر گرینڈ حیات ہوٹل کیس میں کارروائی کر سکتی ہے۔
دو مختلف ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گرینڈ حیات ہوٹل کیس میں متنازع کردار کی وجہ سے انہوں نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دیا۔
ایک ذریعے نے دعویٰ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس اعجاز کیخلاف بھی کارروائی کرنے جا رہی تھی لیکن متعلقہ حلقوں سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی۔
دوسرے ذریعے نے جسٹس اعجاز کے استعفے کی یہی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں جسٹس اعجاز کے کردار کے حوالے سے متعلقہ مواد مختلف اداروں سے چند ماہ قبل جمع کر لیا گیا تھا۔
گرینڈ حیات ہوٹل کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جنوری 2019ء میں گرینڈ حیات ہوٹل کی لیز بحال کی تھی۔ یہ لیز سی ڈی اے نے بائی لاز کی خلاف ورزیوں پر منسوخ کر دی تھی۔ اس تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل تھے جو جج بننے سے قبل میسرز بی این پی کی وکالت کرتے تھے۔
س کمپنی کو ساڑھے 13؍ ایکڑ زمین (ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو) گرینڈ حیات ہوٹل کی تعمیر کیلئے الاٹ کی گئی تھی لیکن کمپنی نے ہوٹل کی بجائے 40؍ منزلہ پرتعیش اپارٹمنٹ کمپلیکس تعمیر کیا اور ہرے بھرے علاقے کو رہائشی اور تجارتی علاقے میں تبدیل کر دیا۔ یہ اپارٹمنٹس با اثر (ہائی پروفائل) شخصیات کو فروخت کیے گئے۔
سپریم کورٹ بینچ نے جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ قبل مختصر آرڈر جاری کرتے ہوئے لیز بحال کی تھی۔ میسرز بی این پی پر کوئی طریقہ وضع کیے بغیر ساڑھے 17؍ ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ اس پر سی ڈی اے کے وکیل نے بینچ میں جسٹس اعجاز کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا اور میسرز بی این پی کے وکیل کی حیثیت سے ان کے کمپنی کے ساتھ سابق تعلق کی نشاندہی بھی کی تھی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے اس اعتراض کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جسٹس اعجاز کے میسرز بی این پی کے ساتھ پرانے تعلق کا اس کیس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔







