تازہ ترینخبریںدنیا

سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ کی 7 برس بعد چین میں ملاقات

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان سے ملاقات کی۔

یہ 7 سال سے زائد عرصے کے بعد دونوں ملکوں کے اعلٰی ترین سفارت کاروں کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات ہے جس میں دونوں ممالک کے دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔

یہ پیش رفت حریف تصور کیے جانے والے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی ثالثی کے نتیجے میں طے پائے جانے والے معاہدے کے بعد سامنے آئی ہے، گزشتہ ماہ ایران اور سعودی عرب نے تعلقات بحال کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کرلیا تھا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی مختصر فوٹیج میں شہزادہ فیصل بن فرحان السعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان ساتھ براجمان ہونے سے قبل ایک دوسرے کا استقبال کرتے نظر آئے۔

مارچ میں چین کے صدر شی جن پنگ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان 7 برسوں سے موجود گہری دراڑ کو ختم کرنے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ایک غیرمعمولی معاہدے میں معاونت کی جوکہ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو عیاں کرتا ہے، شی جن پنگ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان السعود کے ساتھ فون پر کئی امور پر بات چیت کی تھی۔

ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ’آئی ایس این اے‘ کے مطابق بیجنگ میں ہونے والی تازہ ملاقات کے دوران تعلقات کی بحالی اور دونوں ممالک کے سفیروں کی تعیناتی کے انتظامات پر بات چیت کی گئی۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں چین کے کردار نے مشرق وسطیٰ میں اثرورسوخ کا محور بدل کر رکھ دیا، جہاں کئی دہائیوں تک امریکا مرکزی ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے 2016 میں شیعہ عالم نمر النمر کو پھانسی دینے کے بعد ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے ردعمل میں سعودی عرب نے ایرانی سفارت کاروں کو 48 گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا تھا جبکہ ایران سے اپنے سفارت خانے کے عملے کو بھی واپس بلالیا تھا۔

ایک سال قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمن جنگ میں مداخلت کے بعد یہ تعلقات مزید خراب ہونے لگے تھے، جہاں ایران کی حمایت یافتہ حوثی تحریک نے سعودی حمایت یافتہ حکومت کو بے دخل کر کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔

سعودی عرب کے لیے ایران کے ساتھ اس تازہ معاہدے کا مطلب سیکیورٹی خدشات میں کمی ہوسکتی ہے، سعودی عرب کی جانب سے ایران پر حوثیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے جو سعودی عرب کے شہروں اور تیل کی تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کر چکے ہیں۔

2019 میں سعودی عرب نے آئل کمپنی ’آرامکو‘ کی تنصیبات پر ایک بڑے حملے کا الزام ایران پر عائد کیا تھا تاہم ایران نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

جواب دیں

Back to top button