Columnعبدالرشید مرزا

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ۔۔ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے سندھ پر رن آف ریور پراجیکٹ ہے جو داسو ٹاؤن، ضلع کوہستان (بالائی)، خیبر پختونخوا کے 7 کلومیٹر اوپر کی طرف واقع ہے۔ یہ سائٹ مجوزہ دیامر بھاشا ڈیم سائٹ سے 74 کلومیٹر نیچے اور اسلام آباد سے 345 کلومیٹر دور ہے۔ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے جس کی ایک وجہ توانائی کا بحران ہے، وطن عزیز میں اس وقت تین بڑے منصوبے زیر تعمیر ہیں جو توجہ کے طالب ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، یہ تینوں منصوبے پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہیں آج ہم تذکرہ کریں گے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا جو احکام بالا کی خصوصی توجہ کا طالب ہے، کیونکہ یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا سٹیج ون 2160 میگاواٹ ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پراجیکٹ پر 100 ارب ڈالر سے اخراجات میں اضافے کا امکان ہے۔ اس منصوبے کو پہلے 24-2023 میں مکمل ہونا تھا اب 27-2026 میں مکمل ہوگا جس کی کئی وجوہات ہیں۔ زمین کے حصول میں ناکامی، کوویڈ وبائی بیماری اور منصوبے کے مقام پر چینی اہلکاروں کو لے جانے والی بس پر دہشت گردانہ حملہ تین سال کی تاخیر کا سبب بنا۔وزارت پانی اور وسائل اور واپڈا جلد ہی منصوبہ بندی کمیشن کو سی ڈی ڈبلیو پی اورایکنک کی منظوری کیلئے لاگت میں اضافے کیلئے منصوبے کا نظرثانی شدہ پی سی ون پیش کریں گے۔ یہ منصوبہ
2014 میں 586 ارب روپے کی لاگت سے منظور کیا گیا تھا۔ ورلڈ بینک نے بھی فنڈنگ فراہم کی ہے، جو کل لاگت کے 20 فیصد کے برابر ہے۔ اب نئے منظر نامے میں تین سال کے دوران لاگت میں 100 ارب روپے اضافے کا ہوگا۔ اس سے منصوبے کی لاگت قریباً 686 ارب روپے تک بڑھ جائے گی، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ 14 جولائی 2021کو چینی کنٹریکٹر کے عملے کی بس پر ایک بدقسمت دہشت گرد حملہ ہوا جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے جس کی وجہ سے قریباً چار ماہ تک کام مکمل طور پر معطل رہا۔ واپڈا اورحکومت کی ٹھوس کوششوں کے بعد مین ورک کنٹریکٹر نے اکتوبر 2021 کو دوبارہ کام شروع کیااور اس تاخیر نے ریور ڈائیو رژن کے اہم سنگ میل کے طور پر تعمیراتی شیڈول کو بری طرح متاثر کیا جو پہلے نومبر،دسمبر میں طے کیا گیا تھا۔ 2021 دسمبر 2022 تک چلا گیا جس کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر ہوئی۔واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک کمپنی نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی سے ریگولیٹر کے پاس اپنی درخواست میں کمرشل آپریشن کی تاریخ میں 27-2026 تک تین سال کی توسیع کی درخواست کی ہے۔ ڈیم اور آبی ذخائر کے حصے کیلئے زمین ابھی تک مکمل طور پر حاصل نہیں کی گئی ،چونکہ یہ زمین غیر آباد علاقے کے تحت آتی ہے اور محکمہ ریونیو اب تک زمین کے مالکان کا پتہ لگانے میں ناکام رہا ہے۔ ایسی زمین قبائل کی ملکیت ہے۔ لہٰذا زمین کا حصول ایک مشکل کام بن گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کے حصول کے مسائل کی وجہ سے منصوبے پر کام کی رفتار سست رہی جو کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور کوہستان اپر کی ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لینڈایکوزیشن ایکٹ 1894 کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کیلئے اسے واپڈا کے سپرد کیا گیا۔ 2019 میں حصول اراضی کے مسائل کے حل میں کافی وقت اور محنت لگ گئی، جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ قریباً تین سال تک تاخیر کا شکار رہا۔ منصوبے کیلئے درکار زمین کا قریباً 85 فیصد حصہ اب تک حاصل کر لیا گیا ہے جس میں اہم سول کاموں کیلئے درکار ترجیحی علاقے بھی شامل ہیں۔ باقی زمین آبی ذخائر کے علاقے میں آتی ہے جس سے
منصوبے کی رفتار متاثر نہیں ہوگی۔ ورلڈ بینک نے ضلعی انتظامیہ کو بار بار ٹائم لائن میں توسیع کی اجازت دینے کے باوجود 4320 میگا واٹ کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے زمین کے حصول کی رفتار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے منصوبے کے ڈیزائن کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری تفصیلات کے مطابق، مجموعی طور پر تیاری کا کام قریباً 50 فیصد مکمل ہو چکا ہے جس میں پراجیکٹ کالونی، ایکسس انفراسٹرکچر اور 132Kv ٹرانسمیشن لائن شامل ہے، مین سول ورکس کا ٹھیکہ چین کی کمپنی چائنا گیزوبا گروپ کمپنی کو دیا گیا تھا اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سٹیج ون پر کام 23 جون 2017 کو شروع ہوا تھا، جو جون 2023 تک مکمل ہونے کی امید تھی۔ ابتدائی طور پر اہم سول ورکس پر کام کی رفتار سست رہی ۔داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے سامنے بے نقاب ہوئی ہیں، جس میں کمیٹی نے وزارت آبی وسائل کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 20-2019 کا جائزہ لیکرڈیموں کی تعمیر اور بھاشا ڈیم، داسو، مہمند، نیلم جہلم اور K-IV منصوبوں سمیت دیگر پانچ منصوبوں کے فرانزک آڈٹ کا مشورہ دیا۔ آڈٹ حکام کے مطابق سال 17-2016 میں 22.88 ارب روپے کی لاگت سے تین کنٹریکٹس کو حتمی شکل دی گئی۔ 4 ارب 58 کروڑ روپے کی ایڈوانس رقم ٹھیکیداروں کو دی گئی لیکن 5 سال گزرنے کے باوجود ترقیاتی کام شروع نہیں ہوئے، یہ بھی انکشاف ہوا کہ وزارت کی جانب سے 114 افراد کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا گیا تھا، چیئرمین پی اے سی نے قومی خزانے پر مالی بوجھ کم کرنے کیلئے کنٹریکٹ ملازمین کو فوری طور پر فارغ کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس پر بھی مکمل ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ موجودہ پراگریس کا جائزہ یا جائے تو کچھ امید نظر آتی ہے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کریٹیکل ڈائیور ژن سسٹم مئی 2023 تک مکمل ہو جائے گا، چائنا گیزوبا گروپ کمپنی جو کہ مرکزی کام کا ٹھیکیدار ہے، تعمیر کی قیادت کر رہی ہے۔ پراجیکٹ کی 12 مختلف سائٹس پر بیک وقت تعمیراتی کام جاری ہے، منصوبے کی تفصیلات کے مطابق سی جی جی سی تعمیراتی کمپنی آر سی سی ڈیم اور منصوبے کے الائیڈ ہائیڈرو لک ڈھانچے کو انجام دے ر ہی ہے۔ زیر زمین پاور ہاؤس اور الائیڈ ہائیڈرولک ڈھانچے کی تعمیر، ڈیم سائٹ سے اترگاہ تک دائیں کنارے تک رسائی کی سڑک، قراقرم ہائی وے RD 25200 کو آر ڈی 62213 میں منتقل کرنا شامل ہے۔چائنہ سول انجینئرنگ کنسٹرکشن کارپوریشن رائٹ بینک ایکسیس روڈ کی تعمیر کے مختلف حصوں پر کام کر رہی ہے۔ اسی طرح دوبئیر سے داسو تک 132 کے وی ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنہ لمیٹڈ کر رہی ہے۔ داسو پاکستان میں اوسطاً 21 بلین یونٹ کیساتھ سب سے زیادہ سالانہ توانائی پیدا کرنے والا منصوبہ بن جائیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button