ColumnImran Riaz

انتہائوں کو چھوتی سیاسی تقسیم ۔۔ عمران ریاض

عمران ریاض

 

جمہوریت میں اختلاف رائے کو اس کا حسن کہا جاتا ھے لیکن یہ اختلاف رائے بڑھتے بڑھتے معاشرے کو تقسیم کر دے تو پھر اسے حسن نہیں بد صورتی کہا جاتا ہے۔ انتہا پسندی چاہے مذہبی ہو یا سیاسی، کوئی بھی معاشرہ اس کے منفی اثرات سے بچ نہیں سکتا اس لیے مہذہب معاشرے اسے پنپنے سے قبل ہی اس کی سرکوبی کر دیتے ہیں۔ ہمارا پاکستانی معاشرہ جو پہلے ہی مذہبی،لسانی،قوم پرستی اور صوبائی عصبیت جیسی تقسیم کا شکار تھا۔ عمران خان صاحب کے طرز سیاست نے اس میں مزید ایک تقسیم کا اضافہ فرماکے سیاست میں نفرت کے ایسے بیج بو دئیے ہیں جس کے اثرات ایک خاندان سے لیکر ایک محلے،شہر اور ملک تک دیکھے جارہے ہیں۔جمہوری معاشروں میں شخصیت پرستی کی گنجائش نہیں ہوتی اور عوام جس پارٹی کے منشور کو وہ ملکی ترقی کے لیے بہتر سمجھیں اس پارٹی کو ووٹ دیکر اقتدار لے آتے ہیں۔ حکومتی مدت کے خاتمے پر عوام اقتدار میں رہنے والی پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اگرکارکردگی سے مطمئن ہوں تو دوبارہ اسے ہی ووٹ دے کر منتخب کرلیتے ہیں وگرنہ دوسری پارٹی کو حکومت کرنے کا موقعہ فراہم کر دیتے ہیں۔ سال ھا سال جمہوری ممالک میں یہی طریقہ رائج ہے لیکن برصغیر میں ہم لوگ پارٹیوں کے منشور کی بجائے شخصیت پرستی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کون سی بڑی شخصیت نے کونسی پارٹی بنائی ہے، نہ ہم اس پارٹی کا منشور دیکھتے ہیں نہ مستقبل کے لیے اس کی منصوبہ بندی، بس شخصیت پرستی میں اس کے پیچھے چل دوڑتے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں اداروں کی شکل اختیار کرنے کی بجائے موروثی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

عمران خان کے طرز سیاست نے سیاسی تقسیم کو ہوا دی ہے وہ ایسی آگ والی ہوا ہے جس نے ہمارا سوشل فیبرک ہی جلا دیا اپنی سیاست کو جہاد اور دوسرے کو مسلسل چور ،ڈاکو، ملک دشمن اور غدار قراردے کر نفرت کے ایسے بیچ بو دئیے ہیں کہ اب تو ریاستی ادارے بھی اس سیاسی تقسیم کے اثرات کے زیر اثر ہوتے جارہے ہیں۔عدلیہ اگر عمران خان کی مرضی کے خلاف فیصلے دے تو اس کی بے توقیری ۔

اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہ دے تو اس پر الزام تراشی، بیوروکریسی غیر قانونی بات ماننے سے انکار کرے تو اس کے خلاف انتقامی کارروائی۔عمران خان نےایسا سیاسی کلچر پیدا کر دیا کہ کوئی بھی اس تقسیم سے بچنا بھی چاہے تو بچ نہیں پا رہا۔ مطب یہ کہ ایسی سیاسی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے کہ اگر ہر جائز نا جائز معاملات میں میرا ساتھ نہیں دیتے تو اسکا مطلب ہے کہ آپ میرے مخالف سے ملے ہوئے ہیں اور اس لپیٹ میں عدلیہ، انتظامیہ، فوج اور میڈیا سمیت سب ادارے آچکے ہیں۔مزید خرابی یہ ہورہی ہے کہ ریاستی ادارے عمران خان کی بے لگام تنقید سے بچنے کے لیے ان کے دبائو میں آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ سارا ریاستی نظام ہی ان سے خوف زدہ نظر آتاہے۔ اس صورتحال میں جہاں ایک طرف ریاستی ادارے اپنی غیر جانبداری کا بھرم کھو رہے ہیں تو دوسرے عمران خان اپنی عوامی مقبولیت کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے ریاستی اداروں پر دبائو بڑھانے کی اپنی پالیسی کو اور زیادہ تیز کرتے جا رہے ہیں جس سے اب معاشرتی نظام کے ساتھ ساتھ ریاستی نظام بھی بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ ریاستی دارے کسی بھی دبائو کو قبول نہ کرتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں ورگرنہ اس ملک فسطائیت قائم ہو جائے گی۔ یاد رکھیں ہٹلر بھی اسی طرح جرمنی میں فسطائیت لے کر آیا تھا کہ اس نے اپنی مقبولیت سے ریاستی اداروں پر دبائو بڑھاتے بڑھاتے ان کو اپنے سامنے سرنگوں کر دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مقبولیت کے نام پر ہٹلر نے ایسی فسطائیت قائم کی کہ آج وہ تاریخ پر ایک بد نما دھبا ہے۔اگرچہ ہم ایک قوم کے طور پر تین فوجی مارشل لادیکھ چکے ہیں لیکن عمرانی دور میں سیاسی مخالفین ، میڈیا اور عدلیہ کے ساتھ جو رویہ روا رکھا گیا وہ فوجی مارشل لا سے کہیں زیادہ بھیانک تھا اور وہ عمران خان کے مائنڈ سیٹ کی ایک جھلک تھی جو انھوں نے تب دکھائی جب ان کے پاس اسمبلی میں اکثریت بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ مقبولیت کے اس درجے پر تھے۔ اپ اندازہ کیجیے اگر وہ دو تہائی اکثریت کےساتھ اقتدار میں آے تو کیا کیا کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button