بشکری کا جنگل .. قیصر عباس صابر
قیصر عباس صابر
جیپوں کے انجن خاموش ہوئے تو ہواؤں کی سرگوشیاں اپنی بازگشت سمیت سماعتوں میں فطرت کا رس گھولنے لگیں۔محبت کی زباں بولنے لگیں۔ درختوں کے بیچ میدان تھا اور پہاڑی دیوار کے سائے میں بہت بلند اور کھلا جنگلا نصب تھا۔دو کمرے تھے جس کا انتظام غلام رسول چلاتا تھا ۔ سرکاری نگرانی میں پڑا ہوا برفانی چیتا بہت سے لوگوں کے رزق کا وسیلہ تھا۔سیاح برفانی چیتا دیکھنے جاتے اور کچھ نہ کچھ غلام رسول کے ہاتھ دے آتے تھے ۔ غلام رسول خود بھی پیدا گیر تھا، ہر سیاح کو چیتے کی داستان سناتا اور اپنی کہانی بھی بیان کر جاتا ۔ چیتے کی خوراک کے نام پر بھی اسے پیسے مل رہے تھے ، یہ الگ بات تھی کہ گلگت سرکار کی طرف سے بھی چیتے کے لیے اخراجات ملتے تھے۔ غلام رسول نے چائے اور دیگر لوازمات کی کیمپ دکان بھی بنا رکھی تھی جس کے ریٹس مناسب سے زیادہ تھے ۔
ہم جب وہاں پہنچے تو برفانی چیتا آرام فرما رہا تھا ۔ نگران اعلیٰ غلام رسول نے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پھینک کر چیتے کو غضب ناک حالت میں جگایا تو چیتا ایک مکمل جنگلی جانور بن کر غرانے لگا۔ اور کنال سے زائد رقبے پر نصب آہنی چیتا گھر کے باہر ایک بورڈ لگا تھا جس پر چیتے کے حوالے سے حفاظتی ہدایات درج تھیں اور فوٹو بنانے سے منع کیا گیا تھا مگر اس شق کی کھلی خلاف ورزی جاری تھی۔
پھر ہم سب غلام رسول سے داستان چیتا سننے لگے ۔انہوں نے بتایا کہ ہنزہ سے پانی کے بہاؤ میں چیتے کے دو بچے آئے تھے ۔ دونوں ہمارے پاس پرورش پاتے رہے مگر میل چیتا زخمی ہونے کی وجہ سے مر گیا اور یہ فی میل رہ گئی ۔اس نے حکومت کے مطالبے پر چار کنال نو مرلہ زمین دی مگر سرکار نے وعدے پورے نہ کئے۔ یہ چیتی اپنے میل ساتھی کے مر جانے کے بعد کئی ہفتوں تک ملول و اُداس رہی اور کھانا پینا بھی چھوڑے رکھا ۔محکمہ تحفظ جنگلی حیات گلگت بلتستان اس چیتی کی خوراک کے لیے نوے ہزار روپے ماہانہ فراہم کرتی ہے جس سے پانچ کلو گرام گوشت روزانہ اسے کھلایا جاتا ہے ۔ حکومت اس شرط پر میل چیتا فراہم کرنے پر آمادہ ہے کہ اگر پیدا ہونے والے بچے برآمد کر کے زر مبادلہ کمایا جا سکے ، ظاہر ہے حکومت کو فی میل کے جذبات سے تو کوئی سروکار نہیں ہو سکتا۔ حکومت گلگت پندرہ ہزار روپے اخراجات کی مد میں دیتی ہے مگر چیتا دیکھنے والے بھی کچھ نہ کچھ غلام رسول کے ہاتھ پر دھر جاتے ہیں ۔جنگلی حیات کے ماہرین پاکستان میں برفانی چیتے کی خطرناک حد تک کم ہوتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔اس نسل کو لاحق خطرات کی وجہ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیاں اور چیتوں کے رہنے کی جگہیں ناپید ہوناقرار دیا ہے۔
اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا میں 4ہزار 5سو سے 7ہزار 5سو کے درمیان برفانی چیتے پائے جاتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق قراقرم ، ہمالیہ اور ہندوکش میں 320 سے 400 برفانی چیتے موجود ہیں۔
پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات نے شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص لالہ صدیق کمبوہ سے طویل تحقیقات کیں،کیونکہ وہ نامعلوم نمبر سے فروخت کے لیے موصول ہونے والی برفانی چیتے کی کھال کی تصاویر واٹس ایپ پر شیئر کر بیٹھے تھے۔ گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے نایاب برفانی چیتے کی کھال فروخت کرنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے پانچ افراد کو گرفتار کر کے مقامی عدالت کے ذریعے انہیں سزائیں دلوائیں۔
برفانی چیتا، جو پاکستان کا قومی شکارخور جانور (پریڈیٹر)ہے، کا شمار بچے جننے اور دودھ پلانے والے (میملز) جانوروں کی اس قسم میں ہوتا ہے جس کی پاکستان میں آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے ۔ نایاب اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے برفانی چیتے کے اعضا خصوصاًکھال کاکاروبار زورو شور سے جاری ہے۔ برفانی چیتے کے شکار پر پابندی ہے،تاہم بعض مقامی لوگ مختلف کاموں کے لیے پہاڑوں کا رخ کرتے اور اس دوران برفانی چیتا سامنے آنے کی صورت میں چھپ کر اس کا شکار کرتے ہیں۔ برفانی چیتے کے علاوہ پاکستان میں جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کے بین الاقوامی اور ملکی اداروں نے جانوروں اور پرندوں کی ایسی کئی اقسام کو شدید خطرے سے دوچار(کریٹیکل ان ڈینجرڈ)، خطرے سے دوچار (ان ڈینجرڈ)اور کمزور (ولنرایبل) جیسے گروہوں میں شامل کیا ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) سے منسلک ڈاکٹر سعید عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں برفانی چیتوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے علاوہ چترال اور کشمیر کی وادیِ نیلم میں پائے جانے والے برفانی چیتے کی آبادی لگ بھگ 150 سے 350 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ یہ اعدادو شمار
کسی سائنسی ریسرچ کی بنیاد پر اکٹھے نہیں کیے گئے، یہ محض اندازے ہیں۔سال 2002۔2003 میں ہونیوالے ایک سروے کے مطابق بلتستان میں برفانی چیتوں کی تعداد 100 معلوم ہوئی تھی ۔اگست 2017 میں ہونے والی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں برفانی چیتوں کی آبادی بہت کم نہیں تھی اور اسی لیے اس کا سٹیٹس خطرے سے دوچار(ان ڈینجرڈ) قسم سے بہتر کر کے ولنرایبل کر دیا گیا۔ برفانی چیتے کی بقا کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے اس کی تعداد معلوم کرنے کے لیے بھی ایک سروے کیا، جس میں برفانی چیتے کے رہائشی علاقوں کے 25 فیصد ایریا میں کیمرے اور جنیاتی تکنیک استعمال کی گئی۔ (جاری ہے)