پیرول ، دیت اور نئے فارمولے ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے حکومت کو ایسے قیدی جو برسوں سے دیت کی رقم کی عدم ادائیگی کے باعث جیلوں میں پڑے ہیں کے لیے دیت کی رقم کا انتظام کرنے کا حکم دیا تھا۔کئی سال گذر گئے وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے ان احکامات پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے دیت کی عدم ادائیگی سے رہائی کے منتظر قیدیوں کی تعدادمیں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پیرول پر رہائی کی امید لگائے قیدیوں کی تعداد تو اس وقت کئی سو ہو گئی ہے۔ 2020 کے بعد پیرول پر رہائی پانے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے قیدیوں کی ریکارڈ تعداد کو پیرول پر رہا کیا گیا۔سردار عثمان بزدار کے دور میں پیرول ایکٹ بنایا گیا اور تین سال قانون سازی میں گذر گئے حکومت ختم ہو گئی اور قیدی پیرول پر رہائی کے منتظر رہے۔عجیب تماشا ہے قانون میں کسی قیدی نے اپنی قید کا ایک تہائی حصہ گذار لیا ہو اور اندرون جیل اس کا کنڈکٹ تسلی بخش ہو تو اسے پیرول پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ایک ایڈیشنل سیکرٹری (پرزن ) نے پیرول پر رہائی کا اپنا فارمولا بنایا جس میں کسی قیدی کی رہائی میں چھ ماہ رہ گئے تو اسے رہائی مل سکتی تھی۔بھلا سوچنے کی بات ہے جس قیدی کی رہائی میں چھ ماہ رہ گئے ہوں اسے پیرول پر رہا ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔حیرت تو اس پر ہے پیرول بورڈ کے دوسرے اراکین کو بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ورنہ وہ قانون سے متعلق انہیں آگاہ کرتے ۔ بس نشستن برخاستن اجلاس ہوا اور ایک دو قیدیوں کو رہائی دے دی گئی۔بزداردور میں محکمہ پیرول کی تنظیم نو ہوئی اپنی عمارت ہونے کے باوجود مال روڈ پرلاکھوں روپے کرایہ پر نئی عمارت کرحاصل کی گئی۔کئی ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے سافٹ وئیر بنانے کا پرواگرام بنا اورپیرول پر رہائی کا کام رکا رہا۔ جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نہ صرف قیدیوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جیل والوں کی مشکلات بڑھ جاتیں ہیں۔اس وقت پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی تعداد گنجائش سے بہت زیادہ ہے ۔حکومت کو نئی جیلوں کی تعمیر کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔پیرول پر رہائی دینے سے قومی خزانہ پر مالی بوجھ کم
ہونے کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے رہنے کے لیے گنجائش بڑھ جاتی ہے۔تحریک انصاف کے دور میں ایک نئی بات سامنے آئی قیدیوںکاپہلے ماہر نفسیات معائنہ کرے گا۔پیرول بورڈ میں اب ماہر نفسیات کو بھی بلایا جاتا ہے۔ اللہ کے بندوں جس قیدی کو دس سے پندرہ سال جیل میں ہو جائیں وہ تو ویسے ہی مینٹل ہو جاتا ہے ۔حمزہ شہباز کے مختصر دور میں چالیس کے قریب قیدیوں کو پیرول پر رہائی دی گئی اب وقفے وقفے سے پیرول بورڈ کے اجلاس کا پروگرام بنایا گیا ہے رواں ہفتے بورڈ کا اجلاس ہو رہا ہے امید کی جا سکتی ہے پیرول کے مستحق زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو رہائی مل جائے گی۔اہم بات یہ ہے پیرول تو صرف انہی قیدیوں کو ملتی ہے جو قتل جیسے غیر اخلاقی جرم میں سزایاب ہوتے ہیں۔ایسے قیدی جو زنا، ڈکیتی، منشیات اور دیگر اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں انہیں رہائی پیرول پر رہائی نہیں مل سکتی۔جہاں تک دیت کی ادائیگی کا معاملہ ہے جیسا کہ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس مذہبی تہواروں کے قریب مخیر حضرات کے تعاون سے قیدیوں کے جرمانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ دیت کی وجہ سے رہائی کے منتظر قیدیوں کے لیے کچھ زیادہ کوشش کریں تو حکومت کی طرف سے دیت کی رقم کا انتظام کرنے کی ضرورت نہ رہے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے جیل افسران کے بڑے بڑے لوگوں سے تعلقا ت ہوتے ہیں۔بسا اوقات ارب پتی حضرات کسی نہ کسی معاملے میںجیلوں میں آ جاتے ہیں۔ہم کسی کا نام تو نہیں لیں گے ورنہ ہمیں تو بہت سے لوگوں کے بارے میں علم ہے وہ تو رہائی سے پہلے اور جیل میں قیام کے دوران بہت کچھ دے جاتے ہیں جس کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ہماری سمجھ میں نہیں آتا برسوں سے پیرول پر رہائی پانے والوں کی حتمی منظوری ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ دیا کرتے تھے کسی سیانے نے کام کو لمبا کرنے کے لیے پیرول پانے والے قیدیوں کی فہرست کابینہ اجلاس میں بھیجنے کا مشورہ دیا اور اب قیدیوں کا کیس کابینہ کے اجلاس میں جاتا ہے۔ہم نے سعودی عرب میں دیکھا جہاںقتل کے مجرمان کو راضی نامہ کی صورت میں رہائی دے دی جاتی ہے ورنہ قتل کے مجرمان کو پیرول پر رہائی کا تصور نہیں اسلامی قوانین کے نفاذ کے باعث وہاں پیرول پر کسی کو رہا نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے ہاں تو انگریزی قانون رائج ہے نصف صدی سے زیادہ ہوگیا انگریز کا قانون چل رہا ہے۔بزدار حکومت نے جیل ملازمین کے پے سکیل بہتر کرکے ایک اچھا اقدام کیا اب پولیس اور جیل ملازمین کے سکیل برابر ہیں۔بزدار دور میں جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کے تبادلے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہوا کرتے تھے تو پھر ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور آئی جیل جیل خانہ جات کی کیا ضرورت ہے۔ جن افسران نے جو کام کرنا ہے انہی کو کرنا چاہیے تاکہ حکومت بدنامی سے بچ سکے۔چودھری پرویز الٰہی اب وزیراعلیٰ ہیں امیدکی جا تی ہے ان کے دور میں جیل افسران کے تبادلوں کا اختیار متعلقہ افسران کے پاس رہے گا۔جیلوں میں سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کو بدلنے کا رواج کچھ زیادہ ہو گیا ہے کم ازکم دو تین سال تو کسی کو ایک جگہ رہنا چاہیے البتہ شکایت کی صورت میں انہیں بدلنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں نوئے کے قریب ایسے قیدی ہیں جو اپنی قیدتو پوری کر چکے ہیں محض دیت کی عدم ادائیگی سے جیلوں میں ہیں۔ہمیں امید ہے جیل سپرنٹنڈنٹس جیسے عیدین کے قریب تاجر برادری کے تعاون سے قیدیوں کے لیے جرمانے کی رقم کا انتظام کرنے کے ساتھ دیت کی رقم کے حصول کے لیے کوشش کریں گئے تاکہ برسوں سے قید میں لوگ رہائی پا سکیں۔ ہمیں امید ہے پنجاب کی موجودہ حکومت قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ پیرول پر رہا کرنے کے ساتھ دیت کی رقم کا انتظام کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالے گی تاکہ برسوں سے قید لوگ اپنے اہل وعیال کی کفالت کا بندوبست کر سکیں۔