ColumnKashif Bashir Khan

عوام کی جیت پر احتیاط لازم! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

20 صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج ان سب حلقوں کے لیے حیران کن بلکہ پریشان کن ہیں جنہوں نے بزور طاقت مرکز اور پنجاب میں عدم اعتماد کی چھتری تلےتحریک انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے شریف خاندان کو منی لانڈرنگ کے کیس میں فرد جرم سے بچا کر مسند اقتدار پر بٹھایا تھا۔پاکستان میں ماضی کی سیاست سیاسی جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ سے بھری پڑی ہے۔

لیاقت علی خان کے قتل کے بعد چند سال جس طرح اقتدار کی میوزیکل چیئرز گھومی تھیں وہ باب آج بھی پاکستان کی تاریخ کے ماتھے پر ایک بدترین کلنک ہے۔اس اقتدار کی میوزیکل چیئر کا انجام پاکستان میں پہلے مارشل لاء کی صورت سامنے آیا۔ اراکین اسمبلی کی بھیڑ بکریوں کی طرح خرید و فروخت 1985 کے غیر جماعتی اسمبلی میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب قومی اسمبلی کے آج تک بنے تمام سپیکرز سے زیادہ جمہوری سپیکر سید فخر امام کے خلاف ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے اشارے پر 1986میں عدم اعتماد کی تحریک لا کر انہیں منصب سے اتارکرحامد ناصر چٹھہ کو سپیکر قومی اسمبلی بنا یا گیا کیونکہ سید فخرامام آمر کے غیر جمہوری اقدامات کی راہ میں رکاوٹ تھے۔

بھٹو کے چند سالوں کے دور کے بعدکنٹرولڈ جمہوریت تھی جو ایک آمر نے اندرونی اور بیرونی شدید دباؤ کے بعد ملک میں پہلے ایک جعلی صدارتی ریفرنڈم اور پھر ضیاء سرکار کے بینر تلے ایک غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے نافذ کی تھی۔یہی وہ انتخابات تھے جن کے ذریعے کونسلر لیول کے لوگوں کو ملکی سیاست پر مسلط کر کے سیاست میں کرپشن اور غلیظ روایات کا چلن عام کیا گیا۔اس دور میں غیر جماعتی اسمبلیوں کے اراکین کو سرکاری لاٹھی سے ہانک کر تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں ایک جماعت بنائی گئی جسے مسلم لیگ جونیجو کی پوشاک پہنا کر اسے مسلم لیگ کا نام دیا گیا ۔یہی وہ دور تھا جب اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر بھاری رقوم دے کر کرپٹ کیا گیا۔سیاسی وفاداریاں خریدنے اور عوام کا مینڈیٹ روندنے کابدترین عمل اسی مارشل لاءکے تحت بننے والی اسمبلیوں سے شروع ہوا تھا۔

بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم بھی اسی اسمبلی سے پاس کروائی گئی اور پھر قوم نے متعدد مرتبہ اس آٹھویں ترمیم کے ذریعے نافذ کئے گئے اٹھاون ٹو بی کی سیاسی حکومتوں پر ہولناکیاں بھی دیکھیں۔ پاکستان کی سیاست میں جو صوبائیت، لسانیت، مذہبی گروہ بندی و فرقہ واریت اس دور میں ہوئی اس کے اثرات آج بھی پاکستان کی قوم برداشت کر رہی ہے۔

بات 17جولائی کے ضمنی انتخابات پر ہو رہی تھی، حالیہ ضمنی انتخابات کو ضمنی کہنا مناسب نہ ہو گا کہ یہ انتخابات پنجاب کے مختلف اضلاع میں منعقد ہو رہے تھے اور ان انتخابات میں شکست کو نون لیگ کی جانب سے یہ کہہ کر بھی جان چھڑوانا کہ یہ تو تحریک انصاف کی سیٹیں تھیں بھی عوام سے جھوٹ بولنے کے مترادف اور تحریک انصاف اور عمران خان کی بے انتہا مقبولیت کی حقیقت سے انکار ہو گا۔ پاکستان کی سیاست میں انتخاب لڑنے والے امیدواروں کا حکمران جماعت کا امیدوار ہونا اس کی کامیابی کی قریباً 60 سے 70 فیصد ضمانت ہوتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں نون لیگ کے قریباً تمام امیدوار پنجاب حکومت اور حمزہ شہباز شریف کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ان تمام امیدواروں کو پولیس اور انتظامیہ کی بھرپور مدد حاصل تھی جنہوں
نے تحریک انصاف کے امیدواروں اور ان کے حامیوں کی گرفتاریوں سے لیکر ہر قسم کا نقصان پہنچایا بلکہ ایک خوفناک کھیل کھیلا گیا اور پولیس نے بطور خاص پنجاب کے حکمرانوں کے غیر آئینی احکامات مان کر نہ صرف پولیس فورس کی حد درجہ بدنامی کی بلکہ عوام کی بنیادی حقوق پامال کرتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی بری طرح پامال کیا۔

اس خطرناک کھیل میں پنجاب کا چیف پولیس کوتوال اور لاہور کے ایک ڈی آئی جی صاحب کا کردار تو بہت ہی گھناؤنا تھا جو عوام پر تشدد کر کے ان کی تصاویر مختلف گروپوں،سیاسی کرداروں اور صحافیوں کو بھی بذریعہ وٹس ایپ بھیجتے رہے۔یہ و ہی صاحب ہیں جو سردار عثمان بزدار کے دور میں ڈی آئی جی لاہور تھے اور جب انہیں ہٹایا گیا تو سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے مطابق لاہور کے مختلف با اثر لوگوں سے ان کے پاس ڈی آئی جی لاہور لگنے کے لیے سفارشیں کرواتے رہے۔ لاہور میں تعینات سی سی پی او کا تعلق شریف فیملی سے پرانا ہے اور لاہور پولیس کے سیاسی ڈیوٹی ادا کرنے کے وہ ذمہ دار ہیں۔گزشتہ تین ماہ میں صوبائی حکومت نے جوکام پولیس سے لیے،وہ پولیس اور عوام کے درمیان نفرت کی پہلے سے موجود دیوار کو وسیع کرنے کے مترادف ہیں۔

آنے والی پنجاب حکومت کچھ اور کرے نہ کرے ان تمام اداروں کا محاسبہ ضرور کرے جو فرض کی بجائے سیاست میں حصہ لینے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے عوام کو اظہار رائے سے نہ صرف محروم کرتے ہیں بلکہ تشدد سے عبرت کا نشان بنانے کی نہج تک چلے جاتے ہیں۔
یہ ضمنی انتخابات صاف اور شفاف ہر گز نہ تھے اور الیکشن کمیشن کے تمام فیصلے تحریک انصاف کے خلاف جارہے تھے۔16جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج شاہد جمیل خان نے یاسمین راشد کی رٹ پر ایسا فیصلہ دیا جس نے الیکشن کمیشن کی بدترین جانبداری کا پول کھول دیا۔الیکشن کمیشن کا ضمنی الیکشن سے قبل ایک ایسا حکم نامہ معزز جج نے معطل کیا جس میں امیدوار پر لازم قرار دیا گیا تھا کہ اس کے تمام پولنگ ایجنٹس کا تعلق اسی حلقہ سے ہونا لازم ہے جہاں سے وہ الیکشن لڑ رہا ہے۔ماضی میں پاکستان کے انتخابات میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا لیکن الیکشن کمیشن کا یہ حکم نامہ ایسا تھا کہ جس کی وجہ سے تحریک انصاف ہر حلقہ سے پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے ایجنٹ فوری طور پر تعینات نہ کرسکتی اور اس کا فائدہ نون لیگ کو پہنچتا۔

پنجاب کے قریباً تمام حلقوں میں ووٹرز کی یہ شکایت عام تھی کہ ان کے ووٹ دور دراز یا پھر حلقے سے باہر پھینک دیئے گئے ہیں۔بہت اچھی دوست اور کالم نگار مریم ارشد اور ان کی فیملی کے 7 ووٹ بھی ان کے حلقے سے باہر پھینک دیئے گئے۔ اسی طرح بہت سے حلقوں میں زندہ لوگوں کو الیکشن کمیشن کا ریکارڈ مردہ ظاہر کرتا رہا، اب یہ کام تو الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا،لیکن میرے لیے بطور صحافی الیکشن کمیشن کا وہ خط نہایت پریشان کن تھا جس میں قاسم سوری،ذلفی بخاری،علی امین گنڈا پور اور آزاد کشمیر کے وزیر مقبول گجر کی پنجاب میں داخلہ پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ اس خط کو جاری کرنا وفاق پاکستان کی اکائیوں اور آزاد کشمیر کے درمیان نفاق اور نفرت پیدا کرنے کی ایک قبیح کوشش ہے اور ریاستی اداروں و عدلیہ کو16 تاریخ کو لاہور سے جاری ہونےوالے اس خط؍صوبہ بدری کے حکم نامے کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔

شہباز گل کا نوگھنٹے تک پولیس کی غیر قانونی حراست اور عطا تارڑ کے شہباز گل کو گرفتار کرنے کے مختلف چینلوں پر بیانات کے بعد الیکشن کمیشن کے ترجمان کا بیان کہ شہباز گل کو ہمارے حکم پر محدود کیا گیا نون لیگ،پنجاب پولیس اور الیکشن کمیشن کے گٹھ جوڑ کو واضع کرتا ہے جو افسوسناک ہے۔فیصل نیازی کے استعفیٰ پر آج جو اعتراض چیف الیکشن کمشنر نے لگایا وہ بھی ان کی غیر جانبداری متاثر کررہا ہے۔عمران خان اس وقت بلاشبہ نہ صرف پاکستان کا سب سے مقبول رہنما ہیں بلکہ ان کی جماعت اسمبلیوں کے اراکین کے نمبرز کے تناظر میں بھی سب سے بڑی جماعت ہے۔اگر وہ چیف الیکشن کمشنر کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو مریم صفدر اور رانا ثناءاللہ کو اس میں کیا پریشانی ہے؟

یقیناًقارئین بہت کچھ سمجھ چکے ہوں گے۔
پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد رانا ثنااللہ کا تحریک انصاف کے پانچ اراکین اسمبلی غائب کرنے کے بیان اور مبینہ طور پر آئی بی کو استعمال کرنے کی اطلاعات بھی ملک میں انارکی پھیلانے کی بدترین اور مذموم کوشش ہے۔چودھری پرویز الٰہی اس پر سپریم کورٹ سے اپیل بھی کر چکے ہیں جبکہ رانا ثناءاللہ،مریم اورنگزیب اور حمزہ شہباز کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست بھی جمع کروائی جا چکی ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان نے جس طرح سے عوام کے دلوں میں نہ صرف گھر کیا بلکہ نون لیگ کی سیاست کو دفن کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔نون لیگ اب جو بھی کہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ عوام نے عمران خان کی کال پر بڑی تعداد میں باہر نکل کر تمام تر حکومتی مشینری استعمال کرنے والوں کو بری طرح رد کر کے عمران خان کے خلاف رجیم چینج کے کرداروں کو شکست دی اور شہباز شریف کی وزارت اعظمیٰ کو فیض آباد تک محدود کر دیا ہے۔اب پنجاب میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان میں انارکی اور خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے اس لیے رانا ثناءاللہ اور مریم اورنگزیب اور دیگرکو سیاسی بیان بازی میں احتیاط کو مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ عوام بپھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور عوام کو شکست دینا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوتا،اس لیے محتاط رہنا لازم ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button