Aqeel Anjam AwanColumn

پی ٹی آئی خطرناک راہ پر .. عقیل انجم اعوان 

عقیل انجم اعوان
 پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کا عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ ہوا اور عمران خان کی جگہ مسلم لیگ نون کے میاں شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ عمران خان نے اس عدم اعتماد کی تحریک کو امریکی سازش جو فوجی قیادت کے ذریعے پروان چڑھی سے منسوب کیا مگر بعد ازاں اپنے متضاد بیانات کی وجہ سے باشعور حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنے۔کبھی کہا گیا کہ کروڑوں روپے کے بدلے وفاداریاں تبدیل کی گئیں مگر اس پر صاحبان عقل نے کئی اعتراض اٹھا دیے کہ یہ عجیب بات ہے کہ مسلم لیگ قاف پہلے کروڑوں روپے لے کر اپوزیشن سے مل گئی اور بالآخر چودھری پرویز الہٰی اور مونس الٰہی نے پیسے واپس کر دیے اور عمران خان کے ساتھ مل گئے جبکہ چودھری شجاعت حسین اور طارق بشیر چیمہ نے پیسے واپس نہ کئے اور اپوزیشن کے ساتھ وعدہ نبھاتے ہوئے قائم رہے۔ مرکزی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے ووٹ نہ ڈالا جس کی وجہ سے وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہے جبکہ پنجاب میں بیس ارکان اسمبلی نے میاں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا اور آئینی گرفت میں آتے ہوئے اپنی نشستوں سے محروم ہو گئے۔وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد عمران خان ’’خطرناک ‘‘ہو گئے اور آرمی چیف ، سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن وغیرہ کو خوب گالیاں دیں۔
صدر سمیت تمام پی ٹی آئی سیاستدانوں نے ریاستی اداروں کی توہین و تضحیک کی اور اندرونی سیاست کو امریکی سازش کہتے ہوئے غداری کے فتوے جاری کئے۔ عمران خان کے ذہن میں ابھی تک ایک ہی بات ہے کہ وہ جتنی ریاستی اداروں کی تذلیل کریں گے اتنی زیادہ اسے عوامی پذیرائی ملے گی،ان کے خیال میں امریکہ کے خلاف اور فوج کے خلاف بیانیہ پاکستانی عوام میں مقبول ہو گا اور اسٹیبلشمنٹ اپنی غیر جانبداری ختم کرنے اور عمران خان کی حکومت بنوانے پر مجبور ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی اپنی حکومتی مدت کے دوران مالی سکینڈلز کو دبانے کے لیے بھی ریاستی اداروں کے سربراہوں کو غدار غدار کا شور مچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اتنی تذلیل اور غیر آئینی اقدامات ، آئینی اداروں کی تضحیک پر قانونی کارروائی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کسی حد تک کامیاب ہے۔ مگر ایک سوال جو میں اکثر کرتا آر ہاہوں کہ اگر امریکہ اتنا طاقت ور ہے کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے نکلوا سکتا ہے تو کیا اب وہ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بننے دے گا؟
یقیناً ایک سابق وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا اپنے سیاسی مفاد میں اتنا خود غرض ہو جائے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچانے پر اتر آئے۔ عمران خان اپنے چند دوستوں کے علاوہ ایم این ایز کو ملنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔پراپرٹی مافیا اور دوسرے مالی فائدے اٹھانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بجائے آنکھ بند کر لی گئی۔ کل کے متوقع سیاسی رہنمائوں کو رفتہ رفتہ پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا اور کئی مالی مفادات کی سمریوں پر خود دستخط کر دیے۔ ملک ریاض اور برطانیہ سے آئی خطیر رقم کی فائل کو خفیہ قرار دے کر کابینہ کو بھی نہ دیکھنے دیا۔
راوی منصوبہ کے تحت غریب کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کا منصوبہ بنایا ، توشہ خانہ کی تمام قیمتی اشیا کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر بیچ کر بڑی رقم جیب میں ڈال لی۔ تحریک انصاف کا دور حکومت مہنگائی ، بدنظمی اور بری گورننس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے دیانتدار جج اور ان کی فیملی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ، آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس پی آر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔عدلیہ میں واضح تقسیم پیدا کی اور میڈیا پر ببانگ دہل پابندیاں لگائیں اپنا سوشل میڈیا منظم کیا جس کا کام سیاسی مخالفین کی تذیل اور عمران خان کی تعریف کرنا تھا۔ اور تو اور فرح گوگی گجر اور عمران خان کی بیگم بھی مالی سکینڈلز کی زد میں ہیں۔ خاور مانیکا اور ان کے بچوں کی فرح گوگی گجر اور سابق خاتون اول کے ساتھ مل کر تقرر و تبادلوں پر قیمتی تحائف وصول کرنا سب کچھ سامنے آ چکا ہے۔
عمران خان کی غیر سیاسی شخصیت نے امریکہ ، ایران ، سعودی عرب، افغانستان ، عرب امارات ، چین غرض ساری دنیا میں پاکستان کو تنہا کر دیا۔ کشمیر ہاتھ سے گیا اور گوادر ، سی پیک منصوبے ٹھپ ہو گئے۔عمران خان کے دور حکومت میں اقلیتوں کے لیے بہت اچھا کام ہوا۔ مغربی برادری کو اس کے اپنے مذہب کی تعلیم دینا، کرتارپور ، راہداری وغیرہ ایسے اقدامات تھے جو دور رس نتائج کے حامل تھے تاہم ، قادیانیوں کے حوالے سے عمران خان آئینی تحفظ اور کوشش کے باوجود اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے۔گو اس دور میں زبردستی شادیاں اور تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہوئے مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اس مسئلہ کو اچھے انداز سے حل کیا۔
ریاستی اداروں پر دبائو کی وجوہات میں فارن فنڈنگ کیس سے بچنے اور اسٹیبلشمنٹ کی ماضی میں مدد کی خواہش شامل ہیں مگر مقدمات اتنے زیادہ ہیں کہ عمران خان کے دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ماضی سے کہیں زیادہ کوشش کی ضرورت ہو گی اور میری دانست میں اسٹیبلشمنٹ اب اتنی کھلی اور غیر آئینی حمایت دینے کی سکت نہیں رکھتی کیونکہ خزانہ خالی ہے اور جب جیب میں پیسہ نہ ہو تو انسان اپنی مرضی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر پوزیشن کے بارے میں ایک ہی فقرہ کافی ہے کہ اس ملک میں جو حکمران بنتا ہے وہ، اس کے دوست اور رشتہ دار امارت اور دولت مندی کے آسمان پر جا پہنچتےہیں جبکہ ملک کنگال ہو جاتا ہے ۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی حکومت سے وابستہ سیاستدانوں ، میڈیا ، کاروباری حضرات بھی پہلے سے کہیں زیادہ امیر ہو گئے جبکہ پاکستان مزید غریب ہو گیا ہے۔ صاحبان عقل و دانش سے اپیل ہے کہ وہ اس نکتہ پر حکمرانوں کو پر کھا کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button