ColumnQadir Khan

 غداری کا مفت چورن .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی
پاکستانی سیاست میں یہ وتیرہ عام ہوچکاہے کہ عوام کے سامنے بیانیہ الگ تو پس پردہ نیاز مندی کچھ اور ہوتی ہے۔ عید قرباں سے قبل پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگنون کی جانب سے بیک وقت سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ دونوں جماعتوںکے رہنمائوں نے ماضی میں دیئے گئے بیانات اُسی شدت کے ساتھ دوہرائے۔ رن آف الیکشن بھی عید قرباں کے بعد ہوں گے ، اس سے قبل خیال کیا جارہا تھا اور قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ قربانی سے پہلے پھر قربانی ہوگی ۔ جب معروف سیاست دان کی بے تکی پیشگوئیوں کی داستان پر نظر دوڑاتا ہوں تو ان کی ایک فیصد بات بھی سچ ثابت نہیں پاتا۔ جھوٹ کا چمکدار پرہن دے کر ٹاک شوز کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ان میں خصوصیت کا کوئی معیار نظر نہیں آتا ۔ ٹاک شوز اور سوشل میڈیا کو اب چٹ پٹی مصالحہ دار خبروں کی عادت پڑ چکی ہے اس لیے انہیں ان سے بہتر اور موزوں کوئی دوسرا شخص بھی نہیں ملتا ، کیونکہ ان میں کمال خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے جھوٹ فاش ہونے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ اسے بے شرمی کی آخری حدود کہاجائے تو شاید غلط نہ ہو۔ موصوف نے عادت کے مطابق دوبارہ کہا کہ مقتدر حلقوں اور حکومت سے کہتا ہوں، یہ ملک نہیں چلا سکتے، امپورٹڈ حکومت کے لیے جولائی بہت اہم مہینہ کی گردان کرکے میڈیاکو پھر سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا ۔
حالیہ سیاسی جلسوں میں وہی دو بیانیہ تھے ۔ اتحادی جماعت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو برطرف حکومت کی جانب سے وعدہ خلافی کا سبب قرار دیا ۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تاخیر سے معاہدہ کیا اور ہمیں ان کے ساتھ ہر قیمت پر معاہدہ کرنا تھا، اب آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں عمران خان کے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے باعث بڑھانا پڑیں، آئی ایم ایف اب معاہدے کے لیے ناک سے لکیریں نکلوارہا ہے، عمران خان نے خزانہ خالی کردیا، آج پاکستان کے پاس کچھ نہیں۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈھائی برس آئی ایم ایف کے ساتھ گذارے مگر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نہیںمانیں ، روس سے تیل اور گندم کیوں خریدی نہیں جا رہی۔ یہی وہ سوال ہے جس نے پاکستانی عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کیا اور اس کا تشفی جواب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں۔قیاس آرائی اور جھوٹ کے اس بازار میں سچ کا بیان کرنا جوئے شیر لانا ثابت ہو رہا ہے ۔
واضح نظر آرہا ہے کہ ایسی کوئی بات ضرور ہے کہ جیسے قصداََ چھپایا جارہا ہے۔ اگر عوامی رائے سے نتیجہ اخذ کیا جائے تو وہ یہی معصومانہ سوال کرتے ہیں کہ جب روس سستا تیل اور گندم دے رہا ہے تو حکومت خریدتی کیوں نہیں، روس کو اس وقت پیسوں کی ضرورت ہے، کچھ ہفتوں میں یورپ بھی پٹرولیم مصنوعات لینا کم اور پھر ختم کردے گا ، جرمنی نے تو توانائی کے متبادل ذخائر اور ممکنہ بحران سے نمٹنے کی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں ، لیکن ہماری حکومت اس موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہی ، کیا وجہ ہے کہ چین اور بھارت تو خریداری کررہا ہے لیکن پاکستان کے پَر جل رہے ہیں، دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ دو تین ماہ تکلیف دہ ہیں اور اس کے بعد مہنگائی پر قابو پالیں گے۔
عوام یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تھر کے علاقے میں دنیا کا ایک بڑا خزانہ کوئلے کی شکل میں قدرت نے عطا کیا لیکن اس کے باوجود کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے ، وزیراعظم نے بتایا کہ جلد ہی افغانستان سے کوئلہ آنا شروع ہوجائے گا اور مقامی کرنسی میں خریداری کی جائے گی، اس سے زر مبادلہ کی کثیر بچت ہوگی۔ عوام کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ جب جولائی میں ایل این جی کی خریداری بقول وزیراعظم نہیں ہوئی تو توانائی کا بدترین بحران کس سطح پر پہنچے گا، بیشتر نے خیال آرائی کی شاید وزیراعظم کا خیال ہو کہ جولائی میں بارشیں زیادہ ہوں گی اور بجلی کی ضرورت کم ہوجائے گی، اس لیے قیمتی زر مبادلہ بچانے کے لیے اور آنے والے مہینوں میں موسم کی تبدیلی کے بعد طلب و رسد میں توازن آجائے گا ، اس لیے جہاں برسوں عوام نے تکلیف میں گذارے ، وہاں کچھ دن قربانی کا گوشت کھاتے ہوئے اورباربی کیو بناتے گذار دیں۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ حکومت کو روس سے تیل اور گندم خریدنے پر امریکی ناراضگی اور پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تاپی گیس منصوبہ اور ایران گیس لائن کی طرح یہ بھی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اس مرحلے پریورپ اور امریکہ کی مخالفت مول لے۔ برطرف وزیراعظم سیاسی بیان بازی میں اسی کمزوری پر ضرب لگا رہے ہیں۔
ایک جانب لیٹر بیانیہ کی مخالفت کو مبینہ آڈیو لیک میں غداری سے جوڑنے کے احکامات سامنے آئے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے سیکرٹری اوورسیز چیپٹر ڈاکٹر عبداللہ یار نے مبینہ طور پر نائب امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لُو سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ ماضی بُھلائیں اور آگے بڑھیں۔ خیال رہے کہ ڈونلڈ لُو وہی نائب امریکی وزیر خارجہ ہیں جن پر عمران خان پاکستان کو دھمکی دینے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے ، عوام کو سیاسی جماعتیں مل کر بے وقوف بنا رہی ہیں یا پھر کھیل کچھ اور ہے۔ روس سے تعلقات مثالی چاہتے ہیں لیکن دو کشتی کے سوار ہیں، ایک جانب ایک بیان آتا ہے تو دوسری جانب دوسرا بیان سامنے آجاتا ہے۔
غداری کا چورن تو مفت بانٹا جاتا ہے ، حالت یہ ہوگئی کہ شاید کوئی بھی ایسا سیاسی رہنما اور اس کے مقلدین بچے ہوں جو غدار نہ ہو۔ ماضی میں تو یہ تمغہ کسی کسی کے نصیب میں آتا تھا لیکن اب تو یہ نکاح کے چھوہارے کی طرح بانٹے جاتے ہیں۔ آوے کا آوا بگڑا ہواہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو لے لیں کہ انہوں نے ریاستی اداروں کو نشانہ نہ بنایا ہو، ایسا ہو نہیں سکتا، یہی روش اب برطرف وزیر اعظم کی جانب سے شدت سے اپنائی جا چکی ، کھلے عام بغیر کسی ڈھکے چھپے لفظوںکے ، ریاستی اداروں کو ڈکٹیشن دیتے نظر آتے ہیں،اب تو باقاعدہ اللہ پوچھے گا ، کی بددعائیں بھی دینے لگے ہیں۔ بہرحال جو کچھ اس وقت ملک میں قوم کے ساتھ چل رہا ہے وہ آتش فشاں کی طرح خطرناک ہوچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button