ColumnNasir Naqvi

چائے چاہیے کون سی جناب؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

بزرگ بتاتے ہیں برصغیر میں فرنگیوں نے لوگوں کو مفت بانٹ کر چائے کا عادی بنا دیا ورنہ یہاں کے لوگ اس کے نام سے بھی واقف نہ تھے۔ یوں سمجھ لیجیے پہلے مفت ملی، پھر خرید کر پی گئی اور اب زرمبادلہ دے کر پی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر چودھری احسن اقبال آف نارووال نے زرمبادلہ بچانے کی غرض سے صرف ایک کپ چائے کم کرنے کا مشورہ دیا تو صرف یوتھیوں نے نہیں، عام لوگوں نے بھی شور مچا دیا کہ یہ کیا بات ہوئی، غریب اور متوسط طبقے کی معمولی سی عیاشی بھی برداشت نہیں، خودپتا نہیں کیا کچھ کر رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنی جمع تفریق سے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے یہ بھی بتا دیا کہ قریباً 640ملین کی ہم غریب لوگ چائے پی جاتے ہیں اگر 22سے 24کروڑ کی ترقی پذیر آبادی صرف اپنی اپنی روزانہ کی چائے میں ایک کپ کی کمی کر دے تو اچھا خاصا زرمبادلہ بچا کر کسی دوسرے کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے لیکن ہم تو برسوں سے اب چائے کے عادی ہو چکے ہیں۔ گھر، دفتر بلکہ کوئی بھی محفل چائے کے بنا سجتی ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم دنیا میں صرف چائے پینے ہی آئے ہیں۔

اگر کوئی چائے نہ پوچھے تو اکثر ناراض ہو جاتے ہیں اور اگر صاحب روایت اورپرخلوص لوگ اصرار کر کے ’’چائے‘‘ کے بغیر نہ جانے دیں تب بھی خوشی اس لیے نہیں ہوتی کہ صرف چائے کے انتظار میں ایک گھنٹہ ضائع کرنا معمولی بات ہے لہٰذا ’’پروفیسر‘‘ کا مشورہ بْر ا نہ ہوتے ہوئے بھی پذیرائی نہ پا سکا، تاویلیں اور بہانے یہ تھے کہ ایک وزیر نے یہ تاریخی جملہ بولا تھا کہ آٹا مہنگا ہو گیا ہے تو ڈبل روٹی کھا لیں، جبکہ یہی جملہ دوسرے انداز میںترقی یافتہ ممالک میں بھی عام ہوا کہ ’’ڈبل روٹی‘‘ نہیں ملتی تو کیک کھا کر گزارا کر لیں۔میرے مطابق معاشی بحرانی دور میں صرف چائے ہی نہیں پوری قوم ایسی تمام اشیاء سے دوری اختیار کر لے جن پرزرمبادلہ خرچ ہوتا ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ایسی تمام چیزوں سے پرہیز کر کے بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں صرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر شے ہماری گرفت میں آ سکتی ہے، بہترین گندم، چاول، دالیں، چنا، کپاس اور گنا ایسی فصلیں ہیں جن کی پیداوار بڑھا کر برآمدی منصوبہ بندی سے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر سہولیات اور موسمی اعتبار سے آگاہی دی جائے، اگر ہمیں قوم، ملک،سلطنت کے مفادات مقدم ہوں تو ایسے چھوٹے موٹے فیصلوں سے تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ بھارتی حکومت کے استحکام میں ابتدائی دور کے دو اقدام سے انتہائی فائدے اٹھائے گئے۔ اوّل تو کانگریس کے منشور کے تحت جاگیرداروں کی زمینیں تقسیم کر دی گئیں اور دوئم غیر ملکی اشیاء پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ ہمارے ہاں وسائل کی کمی کے باعث یہ دونوں فیصلے نہیں ہو سکے لہٰذا جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور وڈیروں کو اہمیت ایسی ملی کہ آج تک وہ قوم کے سروں پر سوار ہیں، پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی دولت کے مالکان 22خاندانوں کو چیلنج کیا، بڑے بڑے ادارے قومی تحویل میں لے لیے لیکن پس پردہ طاقتوروں نے ان کی منصوبہ بندی ناکام کرا دی پھر آمر مطلق جنرل محمد ضیاء الحق نے اسلام کا ڈنکا بجاتے ہوئے ایسا سامان پیداکر دیا کہ قومی ادارے واپس کر دئیے گئے پھر امریکہ بہادر کی خواہش پرجہادِ اسلام کے نام پر روس کو شکست دے کر ناقص منصوبہ بندی سے طالبان کو بے یارومددگار چھوڑ کر خطے اورپاکستان کے لیے ایک مستقل مسئلہ بنا دیا گیا۔
اس پورے کاروبار میں امیر، امیر تر ہو گیا اور غریب ترقی کے لیے ترستا رہا، نتائج یہ نکلے کہ پھر

رسم چل نکلی کہ حکمران قومی خزانے کو باپ کا مال سمجھنے لگے۔ ہم بھٹو سے پہلے مارشل لائی دور میں پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر محمد ایوب خان کی حکمت عملی میں مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے ناروا سلوک کر کے پاکستان کو دولخت کر چکے تھے لیکن ہم نے اس سانحے سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ آج بنگلہ دیش کے معاشی حالات ہم سے اچھے صرف اسی لیے ہیں کہ انہوں نے دنیا اور حالات سے سبق سیکھتے ہوئے ابتداء میں ہی اپنی خواہشات اور ضروریات کی غلامی برداشت نہیں کی حالانکہ وہاں بھی دو مرتبہ مارشل لائی حکومتیں بھی رہیں۔

تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ جب تک قومی مفاد میں اجتماعی حکمت عملی نہ بنائی جائے اس وقت تک مضبوط اور مستحکم قوم نہیں بن سکتی، جانتے سب ہیں کہ قطرہ قطرہ دریا بن سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں کسی حکمران نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی اس لیے کہ صاحب اقتدار کی منطق اپنی ہی ہوتی ہے ہم نے ملک سنوارنے کی باتیںبہت کیں پھر بھی پہلی اینٹ رکھنے کی کوشش نہیں کی، کرونا اور معاشی بحران نے تو ترقی یافتہ ممالک کو بھی معاف نہیں کیا لیکن بنگلہ دیش ایسے بحرانوں میں بھی قابل مثال ہے۔

پروفیسر چودھری احسن اقبال کو بقراط کہہ کر خواہ کتنا ہی تمسخر اْڑایا جائے،بات قابل توجہ ہےکہ بچت ایک پیسے سے بھی شروع کی جا سکتی ہے۔ 640ملین ایک خطیر زرمبادلہ ہے اگر ایک کپ سے کمی کر کے مثال قائم کر دی جائے تو نتیجتاً بہت کچھ ہو سکتاہے۔ وفاقی وزیر نے انتہائی احتیاط اختیار کرتے ہوئے صرف ایک کپ چائے کی کمی کی درخواست کی ورنہ معاشی بحران کا تقاضا تو چائے چھوڑنے کی ڈیمانڈ کرتا ہے تاہم انہوں نے اپنی قوم کی عادات و اطوار کو جانتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ عام لوگوں نے اس معمولی خواہش کے دوررس نتائج سے بے خبر رہتے ہوئے اسے مذاق میں اْڑا دیا پھر

بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذمہ داروں کو بات سمجھ آ گئی ۔ انہوں نے چائے کم پینے کے مشورے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ملک بھر کی جامعات کو اپنے دیسی مشروب ستو اور لسی کو رواج دینے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ اس سلسلے میں ایچ ای سی کی قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل کی طرف سے تمام سرکاری اور نجی جامعات کے وائس چانسلرز اور ریکٹرز کو ایک خط جاری کر دیا گیا ہے، اس خصوصی مراسلے کے بعد ایک چائے کی پیالی میں کمی والی بات پیچھے رہ گئی جبکہ ستو اور لسی تمام دفاتر اور محفلوں میں زبر بحث آ گیا۔ کچھ اس تجویز کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ یہ چائے سے مہنگا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کے عملی اقدام میں پیسے اور محنت زیادہ ہے، لہٰذا ایسا ناممکن ہے جبکہ سیانے کہتے ہیں۔ جناب چائے کا استعمال انسان کو چست کرتا ہے جبکہ ستو اور لسی سکون کی نیند کا باعث بنتا ہے۔ خود سوچیں دفتری ماحول میں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی یہ سوچنے کو ہرگزتیار نہیں کہ دفاتر میں مہمان نوازی اور تکلفات کو قومی مفاد پر قربان بھی کیا جا سکتا ہے یعنی ایک چائے کی کمی سے کئی فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن کون سمجھائے ؟ حکمرانوں اور اپوزیشن کو تو اپنی نمبر گیم درکار ہے۔ مشترکہ مفاد اور قومی مفادات کا دکھ تو محض دعویٰ ہے۔

بچپن میں ٹی وی اور ریڈیو سے ایک اشتہار چلتا تھا ’’چائے چاہیے ، کون سی جناب؟‘‘ اب پچپن میں وہ رواج ختم ہو چکا ہے،نئے د ور کے نئے انداز ہیں۔ پھر بھی پروفیسر چودھری احسن اقبال کی بات کو کوئی بھی وزن نہیں دے رہا لیکن وہ ہزارہ موٹر وے کے نزدیک شنکیاری پہنچ گئے جہاں چائے کا ہائی ویلیو ریسرچ سنٹر ہے، وہاں چائے کے انتہائی خوبصورت باغات ہیں۔ یہی نہیں اس ریسرچ سنٹر میں کوالٹی اور ورائٹی کے حوالے سے بہترین کام کیا جا رہا ہے۔ مجھے بھی شنکیاری جانے کا اتفاق ہوا، پورا علاقہ خوبصورت اور سرسبز تھا، میں نے گاڑی روک کر ایک مقامی بچے سے پوچھا چائے کے باغات کہاں ہیں؟ وہ قہقہہ لگا کر پشتو لہجے میں بولا :آپ کے اردگرد، دائیں بائیں چائے کے باغات ہی تو ہیں، میں نے اپنے آپ کو جاہل جانتے ہوئے شرمندگی محسوس کی لیکن چودھری احسن اقبال نے وہاں موجود کاشتکاروں اور زمینداروں سے چائے کے بارے میںمعلومات حاصل کیں پھر میڈیا کو بتایا کہ ہم خوش قسمت ہیں شنکیاری میں ہر قسم کی چائے کا شت کی جا سکتی ہے۔ گرین ٹی، بلیک ٹی اور کافی، ملکی معیشت میں یہ اہم کردار اد ا کر سکتی ہے صرف چار سال بعد اس کی فصل اگائی جا سکتی ہیں،

کسی نے منصوبہ بندی کو مثبت طریقے سے آگے نہیں بڑھایا ورنہ 75سالوں میں پاکستان چائے کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہو سکتا تھا بلکہ ہم اعلیٰ درجے کی چائے، قہوہ اور کافی دنیا بھر میں برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کما سکتے تھے۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پروفیسر چودھری احسن اقبال اس سے پہلے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ وزیر منصوبہ بندی رہ چکے ہیں مسلم لیگ نون کا اقتدار بھی کوئی نیا نہیں اور نہ ہی شنکیاری کوئی ایساجزیرہ ہے جو اس دور میں دریافت ہوا ہے۔ بھلا یہ زرمبادلہ بچانے کی فکر پہلے کیوں نہیں ہوئی؟ یقیناً جواب یہی ملے گا کہ اس وقت معاشی بحران نہیں تھا۔ بس ہم میں اور دوسروں میں یہی فرق ہے کہ جب تک سر پر نہ پڑے ہمیں کوئی چیز یاد ہی نہیں آتی۔

لیکن دنیا بھر میں ترقی کے لیے دس بیس اور پچیس سال کی منصوبہ بندی نہ صرف ہر حکومت بناتی ہے بلکہ نئی آنے والی حکومت انہیں قومی مفاد میں جاری بھی رکھتی ہے اب چودھری احسن اقبال کو بلاتاخیر شنکیاری کے کاشتکاروں کے لیے حکومتی سہولیات فراہم کر کے چائے کی کاشت کو خصوصی اہمیت دینی ہو گی تاکہ آئندہ کوئی میری طرح ان سے ماضی کا حساب نہ لے اور ایک کپ چائے کی کمی کے مطالبے کی بجائے چائے پیداوار کے ایسے انتظامات کر دیں کہ انہیں اس کارنامے کے حوالے سے ہمیشہ یاد کیا جائے اور جب جب چائے پینے کی محفل سجے تو کوئی یہ نہ پوچھے،چائے چاہیے، کون سی جناب، بلکہ ہم فخر سے کہیں کہ ہمارا برانڈ، دنیا میں سب سے اچھاہے، ایک کپ نہیں، جتنے مرضی پیو اور پُرمسرت انداز میں جیو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button