ColumnMazhar Ch

عوام کااعتماد .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

چینی دانش ور کنفیوشس سے بادشاہ وقت نے پوچھا، ریاست کو چلانے کے لیے کون سی تین چیزیں از حد ضروری ہیں؟کنفیوشس نے جواب دیاروٹی، فوج اور عوام کا اعتماد، بادشاہ نے کہا کہ اگر ریاست بحالت مجبوری ان میں سے ایک چیز نہ دے تو ان میں سے کس چیز کے بغیرگذارا ہو سکتا ہے؟ کنفیوشس نے جواب دیا ، فوج کے بغیر ریاست چل سکتی ہے۔ بادشاہ نے پھر کہا کہ اگرریاست ان میں سے دو چیزیں نہ دے سکے تو ؟ کنفیوشس نے کہا، فوج اور روٹی کے بغیر گذارا ہو سکتاہے لیکن اگرریاست عوام کا اعتماد کھو دے تو قائم نہیں رہ سکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے نتیجے میں ہونے والی کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی اکثریت کا حکومت پر اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔اگرچہ موجودہ حکومت پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کا نتیجہ قرار دیتی ہے لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ قریباً تین ماہ قبل بننے والی حکومت سے عوام ساڑھے تین سال برسراقتدار رہنے والی حکومت سے بھی زیادہ مایوس اور ناامید ہو چکے ہیں۔

دیکھا جائے تو 2018سے لے کر اب تک عوام مہنگائی کے پے در پے آنے والے ریلے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔سابقہ حکومت کے ابتدائی تین سالوں میںمتعدد بار پٹرول، بجلی، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے کیے گئے جس سے سفید پوش طبقے کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنےپرمجبورہوئی۔پہلےسابقہ حکومت نے معیشت کو درست ڈگر پر لانے کے نام پر شروع سے ہی سخت فیصلے کیے جس کی قیمت عوام کومہنگائی کی صورت میں چکاناپڑی اور اب موجودہ حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کہہ کر سخت ترین فیصلے کر رہی ہے جس کے نتیجے میں اشیائے خورونوش سمیت ہر شے کی قیمت عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالاتو عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں اشیائے خورونوش سمیت بجلی اور گیس کی قیمتوں پر سبسڈی دے رہی تھیںجس کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافے سمیت معیشت پر ناقابل برداشت حد تک دبائو بڑھ گیا تھا۔عمران حکومت نے آتے ہی بجلی اور گیس سمیت دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء پر سبسڈیز بتدریج ختم کرنا شروع کر دیں جس سے غریب عوام کے ساتھ ساتھ سفید پوش طبقے کی زندگیاں بھی اجیرن ہوتی گئیں۔

 

کرونا کے ابتدائی دنوں میں عالمی سطح پر لگنے والے لاک ڈائون کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی ہوئی لیکن حکومت عوام کو اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ ریلیف نہ دے سکی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران حکومت نے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو تین بار مسلسل کمی کی تو پٹرول مافیاز نے پٹرول پمپوں پر پٹرول نایاب کرتے ہوئے حکومت کو اپنی مرضی کی قیمت مقرر کرنے پر مجبور کر دیاجس کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ریکارڈ25روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت بڑھی۔ پٹرول مافیاز کے سامنے سرنڈر کرنے سے پہلے عمران حکومت نے آٹا اور چینی مافیاز کے سامنے بھی گھٹنے ٹیکے، اس کے بعد ادویات مافیاز نے ادویات میں اپنی مرضی کے اضافے کے لیے جان بچانے والی ادویات کو بازار سے غائب کرا دیا۔پی ٹی آئی کے تین سالوں میں ادویات کی قیمتوں میںچار بار اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں بعض دوائوں کی قیمتیںچار سو فیصد تک بڑھ گئیں۔

موجودہ حکومت کو اقتدار ملا تو اانہوں نے بھی عوام کو ذہن نشین کرانا شروع کر دیا کہ عمران حکومت کی جانب سے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں دیا جانے والا ریلیف سیاسی حربہ تھا اور انہیں بہت جلد یہ ریلیف ختم کرتے ہوئے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ حکومت نے جاتے اقتدار کو بھانپتے ہوئے ایک ایسے وقت میں پٹرول کی قیمت میں کمی کی جب عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی تھیں۔اس کے علاوہ بجلی کی قیمت میں دیا جانے والا ریلیف بھی زمینی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔سب جانتے ہیں کہ ہم زیادہ تر بجلی فرنس آئل اور گیس سے حاصل کرتے ہیں جس کا فی یونٹ ریٹ 16سے20روپے میں پڑتا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے ایل این جی کی قیمت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ چار سال قبل چار ڈالر میں ملنے والی ایل این جی اب 40ڈالر میں بھی نہیں مل رہی۔پاکستان اپنی ضرورت کی کل بجلی کا25فیصد ایل این جی سے حاصل کرتا ہے لیکن موجودہ حالات میں ایل این جی کی بڑھی ہوئی قیمت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے یا دوسری صورت میں جولائی میں غیر معمولی حد تک لوڈ شیڈنگ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

 

یہ ساری باتیں اپنی جگہ بجا سہی لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے حکومت پر عوام کا اعتماد بڑی تیزی سے متزلزل ہو رہا ہے۔ پٹرول اور بجلی کے بغیر کسی کا بھی گذارا نہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ مذکورہ دونوں چیزوں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے اشیائے خورو نوش سمیت ہر چیز کی قیمت بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔موجودہ کمر توڑ مہنگائی نے غریب عوام اور سفید پوش طبقے کے ساتھ ساتھ مڈل کلاسیوں کی بھی چیخیں نکال دی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب! آپ کو ادراک ہونا چاہیے کہ گوناگوں مہنگائی نے عوامی سطح پر آپ کی حکومت اور جماعت کی پزیرائی میں خاطر خواہ کمی کر دی ہے۔سوشل میڈیا پر آپ کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا دفاع کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔سخت ترین گرمی اور حبس میں 12سے16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ اور کمر توڑ مہنگائی کے معاملے پر آپ کے حمایتیوں اور عقیدت مندوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں ۔

 

خدارا عوام پرگوناگوں مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے کچھ بڑے اقدامات کیجئے ورنہ آپ بچی کچھی عوام کے اعتماد سے بھی محروم ہو جائیں گے اور عوام کی اکثریت کا اعتماد کھونے کے بعد حکومت کاقائم رہنا معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔تسلیم کہ بھارت جیسی بڑی معاشی طاقت کے برعکس قرضوں اور امداد پر چلنے والے ہمارے ملک کے لیے امریکہ اور یورپی یونین کا دبائو نظر انداز کرتے ہوئے روسی تیل اور گیس خریدنا آسان نہیں لیکن تیزی سے کم ہوتے ہوئے عوام کے اعتماد کو بحال کرانے کے لیے آپ کی حکومت کو کچھ غیر معمولی فیصلے کرنے ہوں گے۔وزیر اعظم صاحب !اگر آنے والے دنوں میں لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی میں کمی کے لیے آپ کی حکومت کچھ نہ کر پائی تو ملک کے سب سے بڑے صوبے میںجولائی کے درمیان میں ہونے والے بڑے ضمنی انتخابات میں آپ عوام کے اعتماد سے محروم ہو سکتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button