تازہ ترینخبریںپاکستان

شہباز حکومت کی پانچ بڑی غلطیاں جن کا اب خمیازہ بھگتنا ہوگا

گیارہ اپریل کو حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے گزشتہ آٹھ ہفتوں میں متعدد فیصلے اور اقدامات کیے ہیں جن کی تعریف بھی ہوئی اور تنقید بھی ہوئی تاہم انہوں نے پانچ ایسی فاش غلطیاں بھی کیں جس پر تجزیہ کار حیران ہیں کہ تجربہ کار حکومت کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

ان میں سے کچھ غلطیاں تو ایسی ہیں جن سے بہت آسانی سے بچا جا سکتا تھا تاہم شاید وزیراعظم اور ان کی حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے نتیجے میں سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر شاید انہیں اس کی پرواہ نہ تھی۔

تاہم ایسے وقت میں جب وزیراعظم ہاؤس سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالے گئے عمران خان اور ان کے سپورٹرز شدید غصے میں سوشل میڈیا کا جارحانہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان غلطیوں نے حکومت کا امیج بری طرح متاثر کیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن پاکستان میں ہفتہ وار دو دو چھٹیوں کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور سرکاری دفاتر میں ہفتے میں صرف ایک تعطیل کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعظم نے سرکاری دفاتر کے اوقاتِ کار میں بھی تبدیلی کی تھی اور دفاتر کو 10 بجے کے بجائے صبح آٹھ بجے کام شروع کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

ان احکامات کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹے بڑے احتجاج بھی ہوئے۔ جمعے کو کراچی میں اسی طرح کے ایک احتجاج کے دوران بینک ملازمین نے پاکستان کی ’وال سٹریٹ‘ کہلائے جانے والے آئی آئی چندریگر روڈ کو ٹریفک کے لیے بلاک کر دیا تھا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے بحران نے اس فیصلے کو غلط ثابت کیا اور حکومت کے اپنے وزراء ہفتے میں دو چھٹیوں کی بحالی کی تجاویز دینا شروع ہو گئے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی اپنی ٹویٹ میں ہفتے میں اڑھائی دن چھٹی کی تجویز دی۔

اس حوالے سے بڑھتی تنقید کے بعد  بالآخر سات مئی کو وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا گیا بلکہ یہ تجویز بھی غور کے لیے کمیٹی کے حوالے کر دی گئی کہ جمعہ کو توانائی بچانے کے لیے ورک فرام ہوم کا آپشن بھی دیا جائے۔ کابینہ کے اس فیصلے کو شہباز حکومت کا بڑا یو ٹرن قرار دے کر حکومت پر سوشل میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔

مئی کے شروع میں وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہونے لگے تو مقامی میڈیا پر ایک دستاویز گردش کرنا شروع ہوئی جس کے مطابق شریف خاندان کے ملازمین اور رشتہ داروں سمیت درجنوں افراد  دورے پر جائیں گے جس کے لیے حکومت نے پی آئی اے سے بوئنگ 777 مانگ لیا گیا۔

تاہم اس پر سوشل اور مقامی میڈیا میں شدید تنقید کے بعد حکومت نے واضح کیا کہ ایسا نہیں ہو گا اور دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف صرف 12 رکنی وفد کے ہمراہ سعودی عرب روانہ ہو ئے۔

واضح رہے کہ  سابق وزیراعظم عمران خان 2021 میں 44 اور 2019 میں 39 رکنی وفد اپنے ہمراہ سعود ی عرب لے گئے تھے۔

تاہم دورے کے دوران  وزیراعظم شہباز شریف کے سرکاری وفد میں بیٹے سلیمان شہباز اور بھتیجے حسین نواز کی موجودگی پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی گئی۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز لندن سے سعودی عرب پہنچے تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ نجی دورے پر عمرے کے لیے پہلے ہی سے یہاں موجود تھےَ اور انہوں نے کوئی سرکاری سہولت نہیں لی۔ بعد میں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے وقت خواجہ آصف نے واضح کیا کہ کسی سرکاری میٹنگ میں حسین نواز موجود نہیں تھے یہ خبر غلط تھی۔

اسی طرح ترکی کے دورے کے دوران سلیمان شہباز کو پاکستانی وفد میں شامل کرنے پر بھی شہباز شریف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سلیمان شہباز پاکستان میں منی لانڈرنگ کے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں اور مقامی عدالتوں کی طرف سے مفرور قرار دیے جا چکے ہیں۔

سلیمان شہباز کو نا صرف وفد میں شامل کیا بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی طرف سے پاکستانی وفد کو دیے گئے عشائیہ میں مرکزی ٹیبل پر وزیراعظم اور ترک صدر کے ساتھ بھی بٹھایا گیا۔

انہوں نے اس موقع پر سیلفی بھی بنائی جو وائرل ہوئی۔ یہ ایسی غلطی تھی جس سے  آسانی سے  گریز کیا جا سکتا تھا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کڑی تنقید سے بچا جا سکتا تھا۔

حکومت نے اپریل کے آخری ہفتے میں وزیراعظم شہباز شریف کی اپنے متعلقہ وزرا اور حکام کے ساتھ ایک ہنگامی میٹنگ کے بعد اعلان کیا کہ یکم مئی سے ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 30 اپریل تک بجلی کی فراہمی کے تمام مسائل دور کر کے یکم مئی سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ہدایات کر دی۔

انہوں نے کہا کہ عوام کو گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مشکلات میں مبتلا نہیں کر سکتے، ایندھن کا مربوط انتظام کریں، مستقل نظام تشکیل دیں، گرمیوں میں آئندہ ماہ کی پیشگی پلاننگ کریں۔

تاہم لوڈشیڈنگ ختم ہونا تو درکنار مئی کے ماہ میں ملک کے طول و عرض میں بجلی جانا معمول بن گیا اور گرمی سے ستائی عوام نے بجلی کی عدم فراہمی پر شدید تنقید شروع کر دی۔ اس کے بعد وفاقی وزرا نے کئی پریس کانفرنسوں میں یقین دلایا کہ لوڈ شیڈنگ مرحلہ وار ختم ہوگی جسے پہلے تین گھنٹے پھر دو گھنٹے اور پھر ختم کیا جائے گا۔

تاہم جون کے دوسرے ہفتے میں بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور ملک بھر میں بیٹریوں کی قلت اور یو پی ایس کی قیمتوں کے بڑھنے کی شکایت سامنے آ رہی ہے۔

شہباز شریف حکومت اور اس کے وزرا لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کی طرف سے بروقت  بجلی گھروں کے لیے ایندھن نہ خریدنے اور نئی منصوبوں پر کام نہ کرنے کو قرار دیتے ہیں مگر عوام کچھ سننے کو تیار نہیں۔ ایسے میں اگر شہباز شریف اور حکومت کی طرف سے مئی میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرنے کا اعلان صورتحال کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کیا جاتا تو شاید حکومت کو اتنی سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

خیبرپختونخوا  کے علاقے بشام میں جلسے سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ عوام کو سستا آٹا دینے کے لیے  چاہے اپنے کپڑے ہی کیوں نہ بیچنے پڑیں وہ بیچ دیں گے۔ 

ن کے اس اعلان پر بھی خاصی تنقید ہوئی اور گزشتہ کئی ہفتوں میں کئی بار پنجاب اور دیگر صوبوں میں آٹا سستا ہونے کے اعلانات ہوئے تاہم دوسری طرف فلور ملز کی طرف سے مسلسل آٹے کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے خاص طور پر پیٹرول کی قیمتوں میں 60 روپے کے اضافے کے بعد مہنگائی کی نئی لہر آئی ہے جس کے بعد بار بار شہباز شریف کے نقاد انہیں کپڑے بیچنے کا وعدہ یاد دلاتے ہیں۔

پیٹرول کی قیمت میں اضافے اور آئی ایم ایف سے معاہدے پر تذبذب

گیارہ اپریل کو حکومت سنبھالنے کے بعد حکومت نے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ اسی  تذبذب میں گزار دیے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر عمران خان کی جانب سے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے برخلاف دی گئی سبڈی ختم کرے یا نہ کرے۔ سبسڈی ختم کرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا اور عوام میں حکومت مخالف جذبات پیدا ہوتے مگر آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال ہو جاتا اور ملک دیوالیہ ہونے سے محفوظ ہو جاتا۔

لیکن حکومت 26 مئی تک یہ فیصلہ نہ کر پائی کہ قیمتیں بڑھائیں یا نہ بڑھائیں۔ اس دوران معاشی بے یقینی کے باعث ڈالر 189 سے 200 تک پہنچ گیا اور آئی ایم ایف نے بھی معاہدے کی تجدید  سبسڈی کے خاتمے سے مشروط کر دی۔

بالآخر حکومت نے 27 مئی کو پہلے پیٹرول کی قیمت میں 30 روپے کا اضافہ کیا پھر چند دن بعد مزید 30 روپے کا اضافہ کیا۔ اس طرح حکومت نے قیمت بھی بڑھائی اور عوامی غصے کا سامنا بھی کیا اور ڈالر کی قیمت بھی بڑھنے دی۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومت فوری فیصلہ کرتی تو شاید آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال ہو چکا ہوتا اور نتیجے میں دوست ممالک سے بھی امداد مل چکی ہوتی اور ڈالر کا ریٹ اتنا نہ بڑھتا۔

دوسری طرف حکومت نے اپنے پہلے سات ہفتوں میں بڑی کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے اور اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے سخت معاشی فیصلوں سے مارکیٹ کا اعتماد بحال کیا جس سے معاشی استحکام آئے گا اور آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قیمتی زرمبادلہ یعنی ڈالرز کی فراہمی کا راستہ ہموار ہو گا۔

رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور ترکی کے دوروں سے پاکستان کے ان ممالک سے تعلقات کو بہتر کرنے کا آغاز کیا ہے جو گزشتہ چار سالوں میں متاثر ہوئے تھے۔ ان ممالک سے تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی تعاون پر مفید بات چیت کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے گورننس کا چیلنج قبول کرتے ہوئے مختلف رکے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کر دیا ہے اور سول سروس کو دوبارہ سے فعال کر دیا ہے۔ کم سے کم تنخواہ کو 25 ہزار روپے کیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے سی پیک اور چین کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتری کی طرف گامزن کرنے کا آغاز کیا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے بلوچستان کی حکومت اور اس کے لوگوں کے ساتھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں بجلی، پانی اور نوکریوں کی فراہمی کی امید دلائی ہے۔

وزیراعظم نے سستے آٹے کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے ہیں اور 40 ہزار سے کم آمدنی والے افراد کے لیے دوہزار ماہانہ کے حساب سے 28 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان بھی کیا ہے۔

اس کے علاوہ وزیراعظم نے میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے گزشتہ حکومت کی میڈیا مخالف پی ایم ڈی اے کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ غیر ضروری اور پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی لگائی گئی اور حکومت نے بچت کے متعدد اقدامات جیسے سرکاری افسران اور وزرا کے پیٹرول میں 40 فیصد کمی اور ان کے بیرون ملک علاج پر پابندی لگائی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button