ColumnHabib Ullah Qamar

جب بھارت کا غرورو تکبر خاک میں ملا .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

آج یوم تکبیر ہے اورپاکستان میں گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی یہ دن بھرپور جوش و جذبے سے منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایات پر جوہری دھماکوں کے چوبیس سال مکمل ہونے پر دس روزہ تقریبات کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ اس مرتبہ یوم تکبیر قیام پاکستان کے 75سال ہونے کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کی طرزپر منایاجائے گا۔ پاکستانی حکام کی طرف سے یوم تکبیر کے حوالے سے انیس مئی سے قومی سطح پر تقریبات کے آغاز کافیصلہ کیا گیا اوراس سلسلہ میں وفاقی حکومت کی طرح چاروں صوبوں و آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو تقریبات منعقد کرنے کی ہدایت کی گئی تاہم ملک میں سیاسی انتشار کی کیفیت کے سبب حالیہ دنوں میں یوم تکبیر کی تقریبات صحیح معنوں میں منعقد نہیں ہو سکیں۔اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ آج یوم تکبیر کے موقع پر لاہور ، اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں سرکاری طور پر تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا لیکن حکومتی اور عوامی سطح پر یوم تکبیر کے حوالے سے وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آیا جو ماضی میں رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے بری طرح دست و گریباں ہیں اور سیاسی استحکام نہیں ہے،وگرنہ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں خاص طور پر یوم تکبیر کے حوالے سے بھرپور جوش و جذبے سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ایٹمی صلاحیت کا حصول اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور پاکستان کی بقا ، سلامتی و استحکام کی ضامن ہے۔پاکستان میں ہر سال یوم تکبیر جوش و خروش سے منانے کا مقصد وطن عزیز کے ازلی دشمنوں کو احساس دلانا ہے کہ پاکستانی قوم کے بچے بچے میں آج بھی وہی جذبے موجود ہیںجو مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرتے وقت تھے، اس لیے وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کے خلاف شروع دن سے سازشیں کرنے والے ہمیں ترنوالہ نہ سمجھیں۔

پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی وجہ سے بھارت پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اس لیے وہ براہ راست حملہ کی بجائے پاکستان کو نظریاتی بنیادوں پر کمزور اورانتشار کی کیفیت پیدا کرکے اسے غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔انڈیا نے پاکستان کے وجود کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا۔ اس کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔جب بھارت نے مشرقی پاکستان پرباقاعدہ فوج کشی کر کے ساری دنیا کے سامنے اسے پاکستان سے الگ کیا تو اس کے اگلے دن 17دسمبر 1971ء کواس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے لوک سبھا میں کھڑے ہو کر کہا تھاکہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میںڈبو دیا ہے۔ یہ پورے پاکستان کیلئے پیغام تھا کہ وہ مغربی پاکستان میں بھی یہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی جب انڈیا پاکستان کے خلاف مذموم سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے باز نہ آیا تواس ساری صورتحال کو بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی توانائی کے حصول کی کاغذی منصوبہ بندی کو عملی شکل دی اور یہ اعلان کرکے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچادی کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔یوں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین منیراحمد خان نے اس نیک کام کا بیڑہ اٹھایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے ہالینڈ میں موجود نوجوان پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل کیں اورانہیں سنٹری فیوجز کے حصول پر مامور کیا جنہوں نے ایٹمی سائنس دانوں کی مستعد ٹیم کے ارکان بشمول ڈاکٹر ثمرمبارک مند کی معاونت سے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔

اٹھائیس مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوںکا پس منظر یہ تھا کہ بھارت نے ایک بار پھرایٹمی دھماکے کر کے طاقت کا توازن برباد کر کے رکھ دیا تھا اورہندو انتہاپسند تنظیم بی جے پی جو، ان دنوں برسراقتدار تھی، کے لیڈروں اور دیگر بھارتی جماعتوں کی طرف سے کھلم کھلا دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ ہم پاکستان کوصفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں سمیت پوری مسلم امہ میں سخت بے چینی پائی جاتی تھی۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو شدید دبائو کا سامنا تھا۔ایک طرف دھونس و دھمکیوں کے ذریعہ انہیں ڈرایا جارہا تھا، ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پابندیاں لگانے کی باتیں کی جارہی تھیں تو دوسری طرف ان کی بات تسلیم کرنے کی صورت میں ایف سولہ طیاروں کی فراہمی اور طرح طرح کے لالچ دیے جارہے تھے۔ پورے ملک میں ایک غیر یقینی کی کیفیت تھی۔

اس دوران پاکستانی قوم کے جذبات یہ تھے کہ سابق وزیراعظم نواز
شریف کو واضح محسوس ہو رہا تھا کہ اگر انہوں نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم ان کا دھماکہ کر دے گی۔یہی وجہ تھی کہ پوری قوم کے دبائو پراللہ تعالیٰ کی توفیق سے نواز شریف حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کر ڈالے اور بھارت کے دانت کھٹے کر کے ہمیشہ کے لیے تاریخ میںاس سعادت کو اپنے نام سے محفوظ کرلیا۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر پوری دنیا میں مسلمانوںنے بے پناہ خوش کااظہار کیا اور اسے عالم اسلام کا ایٹم بم قرار دیا جبکہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے بھارت کے ہوش ٹھکانے آگئے اور صبح شام زہر اگلنے والے بی جے پی لیڈروں کی زبانیں بھی خاموش ہو گئیں۔آج ایک بار پھر یوم تکبیرمنایا جارہا ہے تو بھارت میں اسی ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی کی حکومت ہے جس کی زیر سرپرستی نہتے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی اور مسلم بستیوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ہندوستان میں جگہ جگہ مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ کبھی بھارتی مسلمانوںکو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔ گائے کے ذبیحہ پر پابندیاں لگانے اورتاریخی مساجد کی جگہ مندر کی تعمیرکی باتیں کی جاتی ہیں تو کبھی پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان میں دہشت گردی بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے اور ملک کے دیگر حصوں میں جتنی بھی تخریب کاری و دہشت گردی ہو رہی ہے، اس سب کے پیچھے بھارت سرکار کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ اب تو یہ باتیں بھی واضح طورپر منظر عام پر آچکی ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ناکام بنانے کے لیے  انڈیا نے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کے تحت وہ وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو جیسے کئی دہشت گرد پکڑے جاچکے ہیں جس سے ساری حقیقتیں مزید کھل کر واضح ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی حکمرانوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیںکہ وہ بی جے پی کی دھمکیوں اور پاکستان کے خلاف خوفناک منصوبہ بندیوں کے جواب میں وہی جرأتمندانہ کردار ادا کریں جو پاکستانی  قوم کے دبائو پر 1998ء میں ادا کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار نے اس وقت پاکستان کیخلاف جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میںبھی بھارتی فوج بدترین ظلم و بربریت روا رکھے ہوئے ہے۔

ابھی حال ہی میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یٰسین ملک کو نام نہاد دہشت گردی فنڈنگ کیس میں دو بار عمر قید کی سزا سنادی گئی ہے تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت سرکار جس قدر ظلم و دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے مسلمانوں میں اسی قدر بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ مودی سرکار کی طرف سے جو انداز اختیار کیاجارہا ہے وہ پاکستان سے زیادہ خود بھارت کے یے خطرناک ہے۔ایٹمی پاکستا ن کو تو وہ ان شاء للہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گامگر اس کی پالیسیوں سے بھارت کے تیس کروڑ مسلمانوںکے دل و دماغ میں ایک بار پھردوقومی نظریہ ضرور بیدارہورہا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکمران، سیاستدان اور عوام ملک و ملت کے دفاع کے لیے ایک ہوجائیں اور منظم سازشوں کے تحت پھیلائے جانے والے فکری انتشار ، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی ختم کرکے ملک میں اتحادویکجہتی کاماحول پیدا کیاجائے۔اسی طرح ملک سے سیاسی انارکی ختم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے اس کے بغیر ملک میں معاشی استحکام بھی ممکن نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button