ColumnMoonis Ahmar

ایک جنگ جس کا کوئی فاتح نہیں .. پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر

پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر

روس یوکرین جنگ میں اب تک کوئی بھی فریق فتح کا دعویٰ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا،دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کی عسکری حکمت عملی، اور حوصلے کا غلط اندازہ لگایا، جس کے نتیجے میں مسلسل زبردست مقابلہ جاری ہے قریباً 30 سال کے امن کے بعد یہ پہلی جنگ ہے جسے یورپ نے دیکھا ہے۔ سابق یوگوسلاویہ میں جنگ 1992سے 1995 تک جاری رہی، جس کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن کی ثالثی میں ڈیٹن امن معاہدہ دسمبر 1995 میں طے پایا، لیکن یوکرین کی جنگ میں ایک بڑی طاقت شامل ہے جس نے گزشتہ تین ماہ میں بغیر کوئی نتیجہ حاصل کیے اپنے پندرہ ہزار فوجیوں کو کھودیاہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن، جو روس کے ماضی کے وقار اور شان کو بحال کرنے کی اپنی کامیاب کوشش پر فخر کرتے ہیں، یوکرین پر قبضہ کرنے میں اپنی ناکامی پر حیران ہیں۔ جوہری اور روایتی ہتھیاروں سے لیس اور دنیا کی دوسری طاقتور ترین فوج کا درجہ رکھنے والا روس اب اپنے ہی انتہائی نزدیکی ملک کے ساتھ جنگ میں پھنس گیا ہے۔ اس کے توانائی کے بے پناہ وسائل اور 600 بلین ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ ساتھ 146 ملین افراد کی آبادی اب یوکرین کو روس کے جسم پر لگے مسلسل خون بہنے والے زخم کے طور پر محسوس کر رہی ہے۔

دوسری طرف، یوکرین کو اس کے مغربی اتحادی ،خاص طور پر امریکہ، 40 بلین ڈالر کی اقتصادی، انسانی اور فوجی امداد کے ساتھ مدد دے رہا ہے۔اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا روس پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ اہم مغربی امداد یوکرین کے حق میں توازن کو جھکانے میں مدد دے گی اور اس کے نتیجے میں ماسکو کی شکست ہوگی؟ یا یہ فاتحین کے بغیر جنگ ہوگی؟ کیا روس یوکرین کی تعمیر نو کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہو گا؟ اور کس طرح یہ اضافہ خاص طور پر تیل، خوراک اور ضروریات زندگی کی قیمتیں عالمی معیشت کو مزید خراب کرے گا؟
روسی فوج کی ناقص کارکردگی یوکرین کے عوام کے حوصلے کو مزید بلند کرتی ہے جنہوں نے پوتن کے روس کے ناقابل شکست اور بڑی طاقت کے افسانے کو بے نقاب کیا۔30اپریل کواکانومسٹ میں شائع ہونے والے ایک اداریے کا عنوان ‘روسی فوج کتنی بوسیدہ ہے؟ میں لکھا ہے کہ روس کا اپنا وہ امیج کو سوویت یونین کی صورت میں بہت خراب تھا اُسے درست کرنے کی بجائے یوکرین میں خراب پیش رفت اور بھاری نقصانات نے روس کی ساری ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مسٹر پوتن کی جارحیت سے خطرے میں پڑنے والے یوکرین کے لوگوں کے لیے، روسی فوج کی کم ہوتی ہوئی طاقت ایک شاندار پیش رفت ہے اور اگر روسی فوج کی بے پناہ طاقت کا افسانہ اب بکھر گیا ہے، تو یہ توقع ہے کہ مغربی فوجی امداد سے لیس یوکرین کی افواج روس کی افواج کو انتہائی شدید جانی اور مالی نقصان دے گی اب درست ثابت ہو رہی ہے، کسی بھی نقطہ نظر سے، مغربی طاقتیں اور امریکہ یوکرین کو اپنے ہتھیاروں کی جانچ کرنے اور اپنے فوجی صنعتی کمپلیکس کی صنعت کو زندہ کرنے کے لیے کامیابی سے استعمال کر رہا ہے۔دی اکانومسٹ کے آرٹیکل میں مزید کہا گیا ہے،اب تک یوکرین پر حملہ روس کی مسلح افواج کے لیے ایک تباہی رہا ہے۔
برطانیہ کی حکومت کے مطابق،دو ماہ کی لڑائی میں قریباً پندرہ ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں اور کم ازکم سولہ سو بکتر بند گاڑیاں درجنوں طیارے ،بحیرہ اسود میں روسی فلیگ شپ کے ساتھ تباہ ہو چکی ہیں۔ دارالحکومت کیف پر حملہ ایک افراتفری میں کی گئی ناکامی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ افغانستان کی طرح یوکرین بھی روس کا ایک اور قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی 10 سالہ فوجی مداخلت میں، اس وقت کے سوویت یونین،جو ایک طاقتور سپر پاور تھا، نے قریباً بیس ہزار فوجیوں کو کھو دیا لیکن صرف دو ماہ کے عرصے میں، روس، سوویت یونین کی جانشین ریاست، یوکرین میںپندرہ ہزار فوجیوںسے محروم ہوچکاہے۔یہ تعداد اکتوبر2001سے اگست2021میںامریکی فوج کے انخلاء تک افغانستان میں امریکی و اتحادیوں کی ہلاکتوں کے قریباً برابر ہے لیکن یوکرین میں روسی شکست اور ذلت کی قیمت بہت زیادہ ہو گی کیونکہ اس سے نہ صرف اس کی معیشت تباہ ہو جائے گی بلکہ اس کی دنیا میں دوسری بڑی طاقت کے امیج کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس کے اپنے ہمسائے میں کی گئی مہم جوئی نے مغرب کے مفادات کو یوکرین میں اکٹھا کر دیا ہے، چین کی غیر واضح حمایت حاصل کرنے کے باوجود روس کی افواج کو اب بہت زیادہ فوجی اور اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر اس کی افواج یوکرین میں مزید پھنس جاتی ہیں۔
اس نہ ختم ہونے والی جنگ کے یورپ اور پوری دنیا پر اس کے اثرات کے بارے
میں دو بڑے حقائق سامنے آئے ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ سفارت کاری اور ثالثی جو تنازعات کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کام نہیں کر رہی ہے۔ یوکرین پر روسی جارحیت کے پہلے مہینے میں، دونوں ممالک کے حکام کے درمیان بیلاروس میں بات چیت ہوئی لیکن بے نتیجہ رہی۔ جنگ کی شدت اور روس کی طرف سے یوکرین کے خلاف زبردست فوجی طاقت کے استعمال سے ثالثی کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ روس کو یوکرین کی دلدل میں دھکیلنے کے امریکی گیم پلان نے کام کیا اور ماسکو کے لیے فوجی شرمندگی کا باعث بنی کیونکہ وہ ملک کے ایک بھی بڑے شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ یوکرین کے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں روسی افواج کی طرف سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات نے کیف کی پوزیشن کو مزید بہتر کر دیا ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ چونکہ روس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہے، اس لیے اقوام متحدہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، یوکرین پر روسی حملے کے خلاف جنرل اسمبلی کی قراردادیں ماسکو پر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہیں چونکہ یورپی یونین اور نیٹو یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں، اس لیے ماسکو کا عدم تحفظ کا احساس مزید گہرا ہو گیا ہے۔ مزید برآں، اس پس منظر میں، دو غیر جانبدار نورڈک ممالک، فن لینڈ اور سویڈن، نیٹو میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں جو بالٹک کی جانب سے روس کو مزید گھیرے میں لے لیں گے۔
نیٹو کاسٹریٹجک پلان یہ ہے کہ روس پر قابو پانے اور اس کے جارحانہ منصوبوں کو روکنے کا واحد طریقہ بحر اوقیانوس کے ممالک کے اتحاد کو بڑھانا ہے اور اس نے ماسکو کو مزید نیٹو اور اسکے اتحادی کے مزید
مخالف کر دیا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ترکی نے نیٹو کے اہم رکن کی حیثیت سے فن لینڈ اور سویڈن کو بحر اوقیانوس کے اتحاد میں شامل کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ یہ دونوں نارڈک ممالک دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن پوزیشن لینے سے قاصر ہیں۔ اگر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو میں شامل ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ یورپ میں صرف دو ریاستیں ہیں جو غیرجانبدار ہیں ، خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق،روسی صدر ولادیمیر پوتن نے 16 مئی کو فن لینڈ اور سویڈن کو خبردار کیا تھا کہ وہ نیٹو میں شمولیت پر روس کے سخت جواب کی توقع کریں۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے سویڈن اور ناروے کے نیٹو میں شمولیت کے فیصلے کودور رس نتائج کے ساتھ سنگین غلطی قرار دیا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یوکرین کی جنگ نے روس اور مغرب کے درمیان سرد جنگ کا ایک اور مشکل مرحلہ شروع کر دیا ہے۔بدقسمتی سے، مسلح تنازعات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ دونوں فریق روسی افواج کے غیر مشروط انخلاء اور نیٹو میں شامل نہ ہو کر کیف کی غیر جانبداری کی ضمانت پر مبنی ایک باعزت قرارداد پر متفق نہیں ہوتے۔ مغرب کو یوکرین میں مداخلت بند کرنی چاہیے اور روس کو 24 فروری کو یوکرین کے حملے کے بعد سے ہونے والے مادی اور جسمانی نقصانات کا معاوضہ ادا کرتے ہوئے یوکرین کی تعمیر نو کا یقین دلانا چاہیے۔
(پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر ،جامعہ کراچی کی شعبہ بین لاقوامی تعلقات کے سابق چیئرمین، سابق ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ہیں، اُنکے انگریزی آرٹیکل کا اُردو ترجمہ بین لاقوامی یونیورسٹی جاپان کے ڈاکٹر ملک اللہ یار خان نے کیا ہے )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button