Column

خدارا تعلیم پر توجہ دیں ….. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

کسی بھی ملک کی حکومت کا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ ہر آنے والی نسل کے لیے بہت بہتر ماحول کو یقینی بنائے۔ انہیں زندہ رہنے کے بہتر امکانات فراہم کئے جائیں۔ برے مستقبل اور غیر یقینی کے خوف میں زندہ رہنا اور ہر وقت سلامتی اور آزادی پر تحفظات میں گزاری جانے والی زندگی کیا خوشحال زندگی قرار دی جاسکتی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں چارسو پسماندگی، افلاس اور جہالت منہ چڑا رہی ہو۔ ایسی سلامتی اور آزادی پرکون فخر کرے گا۔ سوائے ان کے جو مروجہ نظام سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ معقولیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ قومی دولت ترجیحی طور پر پیداواری سکیڑ میں لگتی تاکہ ملک قومی دولت کی وسیع تر پیداوار کے قابل بنتا مگر ہم نے دولت پیدا کرنے والے ذرائع اور وسائل (صنعت، زراعت اور تعلیم) پر پیسہ صرف کرنے کی بجائے اپنی قلیل قومی دولت غیر پیداواری سیکٹر پر صرف کردی۔ گویا ہم نے وہ شاخ ہی کاٹ دی جس نے مستقبل میں ملک کے سب اداروں کی ترقی اور خوشحالی کاباعث ہونا تھا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پچاس سال سے یہ وطن علاقائی تناؤ کی سولی پر لٹکا ہوا ہے۔

تین جنگیں اور ایک بڑی خانہ جنگی کو پاکر ہم نے کیا حاصل کیا ہے۔ مستقل’’نہ جنگ اور نہ امن کی کیفیت‘‘ ہر لحاظ سے قوم کے لیے تباہ کن ہے۔ وطن کی آزادی کا ستر سال سے زائد عرصہ محض دشمنی نبھانے میں ضائع ہوچکا ہے۔ اگر یہی عرصہ اور وہ وسائل جو ہم نے دفاع اور جنگوں پر لگائے۔ اس ملک کی تعمیر وترقی میں لگے ہوتے تو آج پاکستانی اقتصادیات اتنی دولت پیدا کررہی ہوتیں کہ یہی ہمارا دشمن اور دنیا کا ہر ترقی پذیر ملک ہمیں حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا۔ بھاری سودی عالمی قرضوں اور اپنی ترقی کے ذرائع کو تباہ کرکے کسی قوم کا دفاع مضبوط نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بہتر سال میں دفاعی اخراجات کو بجٹ کے ٹاپ پر رکھنے سے اندرونی قومی سلامتی داؤ پر لگی بیٹھی ہے۔

ریاست، سماج اور تہذیب کے سب ادارے نہایت پس ماندہ اور لنگڑے لولے ہوگئے ہیں، معیشت اور سائنسی
ترقی نے آگے چل کر دفاع کو حقیقی معنوں میں مضبوط کرنا تھا۔ ہماری الٹی ترجیحات نے انہیں ہی چوس کررکھ دیا ہے۔
کسی ملک کی آزادی اور خود مختاری کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا اگر اس کے اپنے باسیوں کے پھلنے پھولنے کے امکانات سلب ہوجائیں۔ زندگی کی سلامتی اس لیے چاہی جاتی ہے کہ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارا جاسکے، لیکن اگر ’’سلامتی‘‘ کا مطلب گھٹ گھٹ کرجینا ہوتو ایسی سلامتی محض فریب بن کررہ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں سب سے بڑا مسئلہ سلامتی کو نہیں ترقی کو بنانا چاہیے اور سلامتی کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ قوم کی ترقی کے اس عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ کروڑوں لوگوں کی فلاح وبہبود اور ان کی آزادی و خوشحالی سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور ہم نے اسے مشروط کر رکھا ہے کہ جب تک ہمسایہ ملک کے قبضے سے ایک چھوٹے سے رقبے پر مشتمل علاقہ ہمارے ساتھ نہیں آ ملتا۔ اس علاقے میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا قومی وسائل کا خطیر حصہ دفاع کے لیے مختص رہے گا۔ پچھلے ستر سال کا تجربہ ومشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ صورت حال آگے کی کئی نصف صدیاں مزید کھا جائے
گی۔

کیا یہ اس ملک کے ساتھ ظالمانہ مذاق نہیں جسے اتنی بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا کہ اس کی تعمیر وترقی کو غیر معینہ مدت تک کے لیے موخر کرنے کا اعلان کردیا جائے اور اس پر معاشرے کے تمام طبقے تالی بجانے پر مجبور ہوں کہ اس کا نام جب الوطنی ہے۔ کوئی بھی پالیسی اور نظام ہو۔ کچھ لوگوں کے مفادات اس کے ساتھ پیوست ہوجاتے ہیں اور یہ وابستہ مفادات اسے بدلنے نہیں دیتے۔ سلامتی کے شعبے پر مسلسل غیر متناسب خرچے کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور ان کے مزید حصول کا ایک خوفناک جن قومی معیشت کے سر پر آبیٹھا ہے۔ گویا یک نہ شد دوشد اب محض تباہی کی خبر دیتے ہیں۔ قومی اثاثوں اور صنعتوں کو نیلام عام میں بیچ کرکتنے دنوں کا ’’خسارہ‘‘ پورا ہوسکے گا۔ اگر خسارے کی موجب یہی پالیسی مسلسل جاری رکھی جائے گی۔

اس صورت میں بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی سب سے بڑی ترجیح بنا لیں۔ پوری قوم یک نکاتی ایجنڈا بنالے کہ ہمیں تمام انفرادی، اجتماعی اور قومی وسائل صرف اور صرف تعلیم کے لیے وقف کرنے ہیں۔ ناخواندگی کانام ونشان مٹانا ہے۔ تعلیمی اخراجات کا سوال سامنے آئے تو وہ ایسے ہی ناقابل سمجھوتہ ہونا چاہیے جیسے پچھلے پچاس سال سے ہماری کمٹمنٹ سلامتی کے شعبے سے رہی ہے۔ہماری خوشحالی، ترقی اور سلامتی کی سب راہیں صرف تعلیم اور تعلیم ہی کھول سکتی ہے۔ تعلیم سے بڑا پیداواری سیکٹر اور کوئی نہیں۔ ہمارے تمام انفرادی، سماجی اور قومی مسائل کا حل صرف تعلیم کے فروغ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم ہمارے مزدور اور کسان کی پیداواری صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا سکتی ہے، پیداوار بڑھے گی تو عوام کا معیار زندگی بڑھے گا۔

جہالت، توہم پرستی،  ملائیت، مذہبی فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا۔ شرح آبادی میں اضافے کی رفتار تعلیم کے آنے سے رک جائے گی۔ عورتوں کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں آجانے سے کم عمری کی شادیاں بھی رکیں گی اور عورت کی زندگی کا مقصد صرف بچے پیدا کرنا اور پالنا ہی نہیں رہے گا۔ تعلیم ہوگی تو ہمارے ہاں صنعت فروغ پائے گی، جدید فنون وعلوم سے واقفیت رکھنے والے ہنرمند ورکرز پیدا ہوں گے۔ زمیں میں چھپے قدرتی وسائل کی تلاش اور ان کی صنعت وحرفت میں منتقلی کاکام تیز ہوسکے گا۔ تعلیم معیار زندگی کو بڑھائے گی تو ہمارے شہر اور گاؤں دیہات کی بستیاں بھی صاف ستھری ہونے لگیں گی۔ تعلیم سے ہمارے قومی تفاخر اور اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ ہم پاکستانی سراٹھا کر دنیا کی قوموں کا سامنا کرسکیں گے۔ ہم عالمی بھکاری نہیں رہیں گے۔ دنیا کو علوم وفنون ایکسپورٹ کرنے کے اہل بن جائیں گے۔

تعلیم یافتہ ہوں گے تو آئے روز پیدا ہونے والے سیاسی اور جمہوری بحرانوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ قانون کی صحیح معنوں میں حکمرانی آئے گی۔ شخصیت پرستی‘ آمریت، فیوڈل سوچ، بیوروکریسی کی کرپشن، پیشہ ور سیاسی خاندانوں کے قبضے کا خاتمہ ہوگا۔ تعلیم یافتہ، باشعور عوام کے سامنے حکمران قومی دولت کی لوٹ مار نہیں کرسکیں گے۔

ایک اور مستقل نوعیت کا عذاب یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف طاقت ورطبقے قومی دولت کو اس لیے لوٹتے رہتے ہیں کہ ان کو پتہ ہے عوام ان پڑھ‘ جاہل اور بے بس ہیں۔ ہمارے ایک دانشور کی بات سو فیصد ہے کہ اس ملک کو جتنا تعلیم یافتہ طبقے نے لوٹا ہے کوئی اور طبقہ نہیں لوٹ سکا۔ سچ یہ ہے کہ یہ ملک اس لیے لوٹا جاتا رہا اور لوٹا جا رہا ہے کہ ہمارے عوام غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم یافتہ معاشرے مہذب اور قانون کی پاسداری کرنے والے معاشرے ہوتے ہیں۔ قانون کی پامالی صرف جاہل معاشروں میں ہی ممکن ہوتی ہے۔ نہایت قلیل، ادھوری، غیر معیاری اور لنگڑی لولی تعلیم سے معاشرے کو کیا فیض مل سکتا ہے۔ تعلیم علم اور خوبصورتی کا نام ہے۔ آج کے معیار انسانیت پر صرف تعلیم سے ہی پورا اترا جا سکتا ہے۔ ورنہ غیر تعلیم یافتہ فرد جانور سے بھی بدتر ہے۔ یہی وجہ ہیکہ ہمارے ہاں نیچے سے لے کر اوپر تک جنگل کا قانون چلتا ہے۔ طاقت ور کا محافظ قانون، کمزور کو کچل دینے کا قانون۔ غیر تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب غیر تہذیب یافتہ ہونا ہے اور اگر ہم غیر تہذیب یافتہ ہیں تو پھر دنیا میں ہماری عزت کیسے ہوسکتی ہے۔

ہم دنیا کی منڈی میں فقیر اور سستے لوگ ہیں اور اگر ہم سستے ہیں تو ہماری محنت بھی سستی ہے۔ ہماری صنعت و حرفت کی کم مائیگی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سستی چیزیں بناتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے۔ خواہ وہ پراڈکٹ ہویا انسان۔ مہنگے کی عزت ہوتی ہے۔ سستی چیز کو حقیرانہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سے لاپروائی کی جاتی ہے۔ جعلی اناؤں پر ہم کب تک زندہ رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے ہم ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں نہایت بے وقار ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں ظلم کی وہ بھیانک شکلیں موجود ہیں کہ ہمیں خود کو انسان اور انسانی معاشرہ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ہم اپنی اور دنیا کی نظروں میں عزت صرف تعلیم یافتہ بن کرہی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے تمام روحانی، نفسیاتی، سماجی اور سیاسی مسائل کا علاج صرف اور صرف تعلیم میں مضمر ہے۔ ہمیں تعلیم سے زیادہ عزیز کوئی شعبہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری عزت، زندگی اور سلامتی تعلیم سے وابستہ ہے۔ تعلیم ہوگی تو ہم ترقی کریں گے۔ ترقی ہوگی تو دولت میں اضافہ ہوگا۔ دولت میں اضافہ ہو گا تو ہم دفاع پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے قابل ہوں گے۔ ورنہ ہم کتنا بھی اپنی افواج کی صلاحیت پراترائیں۔ وہ ایک پس ماندہ ملک کی غریب الحال افواج ہی رہیں گی۔

اپنی زندگی سے بڑا اور کوئی اصول نہیں ہو سکتا۔ اصول زندہ رہنے کے لیے ہوتے ہیں۔حساب اور منظق کی بات ہے کہ کیا ضد، انا اور عداوت کے معاملے کو یوں صدیوں تک طول دیا جا سکتا ہے۔ اصولوں پر اختلاف ہے تو وہ ہونا بھی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے قوم اور ملک کا مستقبل اور اس کی ترقی کا سارا عمل ہی تباہ کردیا جائے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔ ایمرجنسی ایک عارضی عمل ہوتا ہے مگر افسوس کہ ہمارا ملک ستر سال سے ایمرجنسی میں ہے۔ ہم نے نصف صدی سے زائد عرصہ اپنی قوم کے تمام شعبوں کو معطل کرکے سلامتی کے شعبے کو اعلیٰ ترین ترجیح دے رکھی ہے۔ کیا یہ ہمارا نارمل رویہ ہے۔ کیا ہماری سب نسلیں ایمرجنسی کے حالات میں ہی ختم ہوتی رہیں گی۔ کیا ہم اگر آج دنیا میں جہالت کی فہرست میں دوسرے بڑے نمبر پر ہیں تو کیا اب جہالت میں پہلا نمبر حاصل کرنے کی طرف رینگنا ہے یا تعلیم کی طرف جانا ہے۔ حکومتیں ہمارے ہاں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ تعلیم سے سبھی دور رہتی ہیں اور قوم کو بھی رکھتی ہیں۔ کاش کہ کوئی حکومت قوم کے ہر بچے کو تعلیم دینے کا اٹل فیصلہ کر کے میدان عمل میں آئے۔ کاش کہ کوئی حکومت ملک کے نجی سکولوں کو اس امر کا پابند بنادے کہ وہ مزدور کی کم از کم تنخواہوں کے برابر اپنے اساتذہ کوبھی تنخواہیں دیں۔ دوسرے لفظوں میں نجی سکولوں کے استاد مردوں اور خواتین کو کم از کم مزدور تصور کر کے ہی انہیں درس و تدریس سے وابستہ رہنے کا موقع دے دیا جائے تاکہ وہ بھوک اور افلاس سے محفوظ رہ کر فریضہ انجام دیتے رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button