Column

امریکی سازش؟ ….. روشن لعل

روشن لعل
 
عمران خا ن کے حامیوں پر ان دنوں یہ بیانیہ جادو کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے تحت ختم کی گئی ہے۔اگرچہ کئی لوگ اس جادو کو شعبدہ بازی قرار دے رہے ہیں مگر عمران خان کے حامیوں پر اس کا اثر شاید جادو سے بھی زیادہوا ہے۔ گوکہ پاکستان میں بھی اس جادو کی وجہ سے کئی افسوسناک مناظریکھنے کو ملے مگر جو کچھ یورپ اور امریکہ میں نظر آ یا وہ تشویشناک حد سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اس جادو کی بدولت پی ٹی آئی کے حامی جس لب و لہجے میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اسے ہو بہو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکہ میں رہنے والے عمران خان کے حامی ا س جادو کے زیر اثر ، پاکستان اور اس کے اداروں کے متعلق تو نہ جانے کیاکچھ کہہ رہے ہیں مگر جس امریکہ پر اس مبینہ سازش کا الزام ہے اس کے خلاف ان کی زبانوں سے ایک لفظ بھی برآمد نہیں ہو رہا۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ امریکہ میںملنے والا آزادی اظہار کا حق صرف پاکستان کو کچھ بھی کہنے کے لیے نہیں بلکہ امریکہ کی مذمت کرنے اور امریکہ کو مردہ باد کہنے کے لیے بھی استعمال کریںاوراگر نعرہ بازی سے فرصت ملے تو امریکی انتظامیہ سے یہ بھی پوچھ لیں کہ آخر اسے عمران خان کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے خود امریکیوں کو سمجھ آجائے کہ وہ کیسے اور کیوں عمران خان کے خلاف کوئی سازش کر بیٹھے ہیں۔ یہ بات اگر امریکیوں کو سمجھ آگئی تو عین ممکن ہے کہ ان پاکستانی اداروں کے پلے بھی کچھ پڑ جائے جن کے سر پر عمران خان کے سازشی بیانیے کا جادو نہیں چڑھ سکا اور حالات و واقعات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد بھی وہ کسی مبینہ امریکی سازش کے سرے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
پاکستان کے حساس اداروں اور جن دوسرے لوگوں کے ہاتھ ابھی تک مبینہ امریکی سازش کا سرا نہیں لگ سکا ان کے متعلق یہ بات یقین سے کہی جاسکتی وہ اپنے تمام تر تجربے کے باوجود ہماری ایک ’’نابغہ ‘‘ شخصیت کی طرح ابھی تک امریکہ کو امریکیوں سے بہتر نہیں جان سکے۔ اگر ان اداروں نے کسی سے امریکہ کو امریکیوں سے بہتر طور پر جاننے کا ہنر سیکھ لیا ہوتا تو ایک خاص خط کو پڑھے اور دیکھے بغیر ہی ان پر بھی مبینہ امریکی سازش آشکار ہو چکی ہوتی ۔ گو کہ ہر کوئی اتنا تانے شاہ نہیں ہو سکتا کہ وہ امریکہ کو امریکیوں سے زیادہ بہتر
جاننے کا دعویٰ کر سکے مگر اس طرح کی مہارت نہ ہونے کے باوجودبھی مستند عالمی محققین کے امریکی کردار کے متعلق اخذ کردہ نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ لوگ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکہ کیوں ، کس وقت اور کیسے کسی دوسرے ملک کی حکومت کے خاتمے کے لیے سازش تیارکرتا ہے۔
تاریخ کے مستند ریکارڈ کے مطابق ماضی میں کئی مرتبہ ایسا ہوا جب امریکہ نے مختلف ملکوں میں سازشوں کے تحت نہ صرف اپنی پسند کی حکومتیں قائم کیں بلکہ ناپسندیدہ حکومتوں کو ختم بھی کیا۔ یہ کام امریکہ نے اپنے اداروں کے ذریعے سرد جنگ کے دور میں اور اس کے بعد بھی کیا ۔ امریکہ کی طرف سے کی گئی اس طرح کی سازشوں کی مثالیں سرد جنگ سے بعد کے دور میں نسبتاً کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ کی طرف سے نہ صرف اس طرح کی سازشوں میں کمی دیکھنے میں آئی بلکہ ماضی کی نسبت ان سازشوں کی کامیابی کا تناسب بھی کم رہا۔
مثال کے طور پر سرد جنگ کے بعد امریکہ نے وینزویلا کے مرحوم صدر ہوگیو شاویز کی حکومت گرانے کی سرتوڑ کوششیں کیں مگر اس طرح کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ مضبوط ہیو گو شاویز کے بعد امریکہ نے اس کے کمزور جانشین نکولس مادھورو کی حکومت ختم کرنے کے لیے بھی سازش کی مگر یہ سازش بھی پوری طرح کامیاب نہ ہو سکی ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ
امریکہ کی ہیو گو شاویز حکومت کے خلاف سازش کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شاویز نے ایک تو وینزویلا میں اپنی قسم کا سوشلزم نافذ کر تے ہوئے مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کو نیشنلائزکرکے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کیاتھا اور دوسرا اس نے امریکہ کے اعلانیہ دشمن ایران کے تعاون سے امریکہ کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہوگیو شاویز کے بعد اس کے جانشین نکولس گوویڈو نے بھی اس کی پالیسیوں کو جاری رکھا جس کی وجہ سے امریکہ اس کے بھی خلاف ہوا۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے یہاں ہیوگو شاویز جیسی کونسی ایسی معاشی اصلاحات نافذ کیں کہ جن کی وجہ سے امریکہ کو محسوس ہوا ہو کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے کہیں کوئی چیلنج کھڑا ہو گیاہے ۔ کیا عمران خان کا آئی ایم ایف سے قرض لینے جیسا عمل امریکہ یا سرمایہ دارانہ نظام کے لیے کوئی چیلنج تصور کیا جاسکتاہے۔ کیایہ کہا جاسکتا ہے عمران خان کی طرف سے آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کی شرائط مانتے چلے جانے سے امریکہ کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ کیا آئی ایم ایف کی سفارشوں پر پاکستانی عوام کو مسلسل مہنگائی کی چکی میں پیسے چلے جانا امریکہ کے لیے کوئی مسئلہ تھا۔ کیا آئی ایم ایف کے کہنے پر پاکستانی اداروں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سابقہ ملازموں کو تعینات کرنا امریکہ کو ناپسند تھا۔ کیا سٹیٹ بنک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کی نمائندے کی سربراہی میں خود مختار ادارہ بنانے پر امریکہ اتنا ناخوش ہوا کہ اسے عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش کرنا پڑی۔ اگر عمران خان نے ایک ٹیلیفون کال پر اپنا ملائیشیا کا دورہ منسوخ نہ کیا ہوتا تو شاید کوئی چند لمحوں کے لیے سوچ بھی لیتا کہ امریکہ اس وجہ سے اس سے ناراض ہوامگر عمران خان نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ جب عمران خان نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں جو امریکہ کی اس سے ناراضی کا باعث بن سکتا ہو توپھر کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اس کی حکومت کے خاتمہ کے لیے کوئی سازش کی ہوگی۔
اگر عمران خان نے ہیوگو شاویز کی طرح ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہوتی تو یہ امر بھی امریکہ کے لیے عمران حکومت کے خلاف سازش کرنے کا جواز ہو سکتا تھا۔ گو کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہاں ایران کے خیرخواہوں کی عمران خان کے لیے غیر مشروط اور حیران کن حمایت دیکھنے میں آرہی ہے مگر ابھی تک کسی قسم کے ایسے شواہد سامنے نہیں آ ئے کہ جنہیں جواز بنا کر عمران خان پر ایران کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں شک کیا جاسکے ۔ جب ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ آخر امریکہ پر ایک ایسی مبینہ سازش کا الزام کیوں لگایا جارہا ہے جس کے لیے کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے جب کوئی عمران خان کے دورہ روس کو ان کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک اور مبینہ امریکی سازش کے ساتھ جوڑتا ہے تو اس پر ہنسنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button