Column

بائے بائے پنجاب اسمبلی ؟ ….. عدنان ملک

عدنان ملک

پاکستان کی سیاست بھی عجیب لڈو کا کھیل ہے۔جس میں سانپ سیڑھی والا کھیل عجیب سنسنی خیز ہوتا ہے۔ کسی کے حصے میں سیڑھی آتی ہے تو کسی کے حصے میں سانپ کا ڈ سنا آتا ہے۔اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں مو جود بعض جمہوریت پسند سیاستدان عوامی منشاء کے مطابق اور بعض ’’انہوں‘‘ کے کہنے پر چلتے ہیں۔ وہ پہلے حکم مانتے ہیں پھر جمہوریت پسندی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگران کی سوچ میں ضمیر کی آواز محض پارٹیاں بدلتے رہنے سے آتی ہے تو پھر انکا اللہ ہی حافظ ہے۔ان جیسے ضمیر کی آواز پر ٹھیکوں اور ترقیاتی کاموں میں کمیشن نہ ملنے پر ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے حلقہ کے عوام کی توہین نہ کریں۔ کیا’’ووٹ کو عزت دو‘‘ صرف نون لیگ کے ووٹوں کے لیے ہے یا پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کے ووٹروں کے ووٹوں کو بھی عزت ملنی چاہیے؟

خداراجمہوریت کو خطرات سے لاحق نہ کریں۔ اگر چھ اپریل تک کچھ مزید ضمیر جاگ گئے تو پھر پنجاب اسمبلی کا اللہ حافظ ہے اور اس کو یہ سارے جمہوریت پسند اپنے ہاتھوں اس کی آخری منزل تک پہنچادیں گے دوسری جانب وفاقی وزرا ء کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جیسے ماضی کی پنجابی فلموں میں ولن کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو ہیرو کو کہتا تھا کہ ’’گولی مار اوے ، جے ماں دا دودھ پیتا اے‘‘۔مجبوراً ہیرو کو ولن کو گولی مارکر جیل جانا پڑتا تھا تاہم بعد میں ہیرو کے اقدام کو غیرت کا تقاضا قرار دیکر باعزت بری کردیا جاتا تھا۔

اپوزیشن نے اچھی چال چلی جو حکومتی وزراء کہتے تھے کہ 172 ارکان پورے کرو۔یہ کر ہی نہیں سکتے اور جب اپوزیشن نے دوسو تک کر دئیے اور پھروہ بھی ضمیر جگا بیٹھے جو عمران اور بزدار حکومت میں ضمیر کو سلائے بیٹھے تھے۔ اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی میں بھی مزید ارکان کے ضمیر جگانے کرنے کا دعویٰ بھی کر دیا تو وزراء کو ہوش آیا کہ یہ کیا ہوگیا ۔ہم نے تو جوش میں یہ باتیں کی تھیں۔ حکومتی وزراء نے اپنی بوری میں سوراخ ہوتے نہیں دیکھے۔منحرف ہونے والوں میں چند ایک ایسے بھی ہیں جنہیں ہر حکومت جس میں وہ رہے ہیں،بری لگتی ہے اور آنے والی بہتر لگنے لگتی ہے۔ اگر سب سیاستدانوں کے ضمیر جاگ گئے تو پھر جمہوریت سمٹتی رہے گی اور 1985 والی صورتحال حاکم بدہن نہ پیدا ہو جائے۔ہر سیاسی پارٹی میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک گراس روٹر اور دوسرے پیرا شوٹر۔سیاسی جماعتیں یہ نہیں سوچتیں کہ پیراشوٹر کو بالآخر نیچے آنا ہوتا ہے اور گراس روٹر کو ہمیشہ اوپر جاناہوتا ہے۔ ا س لیے جو لوگ ابھی موجودہ حکومت کو چلتا کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں، وہ کل کو کیا کریں گے اور جو آج لوٹے بنے ہیں وہ کس منہ سے اپنے حلقوں میں جائیں گے ۔ اس لیے ابھی سے یہ سوچ لیں کہ غیرت سے جینا ہی جینا ہے اور دنیا بھر کے قبرستان بھرے پڑے ہیں ایسے امن پسندوں سے جو یہ سوچ کر اپنے حق پر کھڑے نہیں رہ سکے کہ کہیں انہیں جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔

ٹیپو سلطان کاکہنا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
ٹیپو سلطان کے دور میں آٹے پیاز اور ٹماٹر کے کیا ریٹ تھے، کسی کو پتہ نہیں،مگر غدار کون تھے، 250 سال بعد بھی لوگوں کو پتہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button