Editorial

آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ملک میں موجودہ آئینی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت آج دوپہر بارہ بجے تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت میں متحدہ حزب اختلاف کی طرف سے پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور استدعا کی کہ آج ہی مقدمے کا فیصلہ دیدیا جائے کیوں کہ رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے، صدر مملکت، وزیراعظم نگران حکومت کے لیے نام مانگ رہے ہیں، تین دن میں آئین کے مطابق نام دینا لازمی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا، کل(آج بروز منگل) رضا ربانی اور مخدوم علی خان کے دلائل سن کر دوسرے فریقین کوبھی سنیں گے۔دوسری طرف سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے نگران وزیراعظم کے لیے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا نام تجویز کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ صدر مملکت کے خط کے جواب میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی سے مشورے اور منظوری کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا نام نگران وزیر اعظم کے لیے تجویز کیا ہے۔اس معاملے پر ابتک ہونے والی پیش رفت کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں نگران حکومت کی تشکیل کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خط لکھ کرنگران وزیراعظم کے لیے نام مانگے تھے اور خط میں یہ بھی کہا گیاتھا کہ نگران وزیراعظم کی تقرری تک عمران خان بطور وزیراعظم فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ آرٹیکل 224 اے ون کے تحت نگران وزیراعظم نامزد کیا جائے گا۔ رولز کے مطابق صدر مملکت ، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے نگران وزیراعظم نامزد کریں گے ، اسمبلی تحلیل ہونے کے 3 روز میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر متفق نہ ہوئے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا جائے گا، سپیکر اپوزیشن اور حکومتی اراکین پر مشتمل 8 رکن کمیٹی تشکیل دیں گے جو نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرے گی۔متذکرہ پیش رفت کے تسلسل میں بات کریں تو اتوار کے روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر ہونے والی کارروائی صرف ایوان میں موجود لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے حیران کن تھی جو اِس معاملے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ اگرچہ حزب اختلاف ڈپٹی سپیکر کی تمام تر کارروائی کو غیر آئینی قرار دے رہی ہے لیکن دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی ٹیم مطمئن ہے بہرحال سپریم کورٹ ہی اِس معاملے پر قوم کی درست رہنمائی کرے گی ۔
حالیہ معاملے میں ایک چیز تو واضح ہوچکی ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت نے غیر ملکی مداخلت کو سختی سے مسترد کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی مداخلت کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے جس جس موقعے پر جو جملے ادا کیے آج ان کو عوام میں زبردست پذیرائی مل رہی ہے اور وطن عزیز میں غیر ملکی مداخلت کے معاملات پر عامۃ الناس میں کھل کر بات ہورہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے جو بھی محرکات ہوں،سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہمیں کسی پربات نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ سپریم کورٹ میں یقیناً یہ ساری چیزیں زیر بحث آئیں گی اور معزز جج صاحبان تمام حقائق اور شواہد کو مدنظر رکھ کر قوم کی رہنمائی فرمائیں گے لیکن عدالت کے باہر کے ماحول کو بہرصورت نارمل رکھا جائے کہ سیاسی معاملات کو عوامی سطح پر
لانے کے نتائج امن و امان کی خرابی کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں جیسا کہ ابھی سے ایسی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ سیاسی کارکنان کئی مقامات پر ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہورہے ہیں اور اگرکوئی اِس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو بلاشبہ ملک و قوم کو اِس کا نقصان ہوگا۔ ہم نے کل بھی یہی گذارش کی تھی کہ اب جلد ازجلد سیاسی بحران کا خاتمہ ہوجانا چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کا فائدہ ہے ۔ کم وبیش ساڑھے تین سال یعنی جب سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تب سے حزب اختلاف نے اِس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیااور تب سے ہی حکومت کے خلاف ملک گیر جلسے اور جلوسوں کے ساتھ ایسا ماحول برقرار رکھاگیا اور آج نوبت تحریک عدم اعتماد اور پھر معاملہ عدالت تک پہنچ چکی ہے جبکہ سیاسی قیادت کو اپنے اقوال اور اعمال کی وجہ سے پوری قوم کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے جیسا کہ دیگر مہذب ممالک کے رہنما اپنی قوم کے لیے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست کے صرف منفی حربے ہی مخالفین کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں مثبت رویوں کا فقدان ہمیشہ سے ملکی سیاست میں شدت سے محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ ایک طرف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو دوسری طرف صدر مملکت نے وزیراعظم عمران خان اور سابق قائد حزب اختلاف سے نگران سیٹ اپ کے لیے نام مانگ لیے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو نگران سیٹ اپ کے لیے ایسے نام سامنے لانے چاہئیں جو اپنے کردار کی وجہ سے سبھی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہوں تاکہ بعد میں کسی کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہ ملے کیوں کہ بدقسمتی سے ہمارا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے کہ ہم قبل ازانتخاب ہی ووٹرز کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے دھاندلی کے پیشگی نعرے تیار کرلیتے ہیں اور پھر نتائج کو متنازعہ قرار دے کر اگلے انتخابات تک سڑکوں پر رہتے ہیں، حزب اختلاف سڑکوں پر رہتی ہے اور حزب اقتدار اِس سے نمٹنے کی فکر میں رہتی ہے اور اِس دوران عوام بنیادی مسائل حل نہ ہونے پر سراپا احتجاج رہتے ہیں ایسا اِکا دُکا ہوا ہوتا تو یہاں ذکر بھی بے معنی تھا لیکن ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ ہم دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ پی ٹی آئی حکومت کے معاملے پر بھی ہوا لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اب سیاسی جماعتوں کی قیادت کو سیاست میں مثبت اور خوشگوار روایات کی مثالیں پیدا کرنی چاہئیں تاکہ نسل در نسل چلے آرہے عوامی مسائل حل ہوسکیں کیوں کہ سیاست دانوں کا ماضی گواہ ہے کہ ہر کوئی عوامی عدالت میں سرخرو ہونے کے لیے یہی کہتا ہے کہ اِسے حزب اختلاف نے کام نہیں کرنے دیا اور یقیناً کئی بار یہ موقف درست بھی معلوم ہوتا ہے اِس لیے اگر سیاست برائے اقتدار کی بجائے سیاست برائے عوام کا رویہ اپنالیا جائے تو کیا دقت ہے کہ عوامی مسائل جڑ سے ختم نہ ہوں ہم مختصراً یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسی قیادت اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت عوام کا مزاج اور سوچ بھی مدنظر رکھیں تاکہ قومی پالیسی کے طور پر جو بھی پالیسی اقوام عالم کے سامنے آئے وہ عوامی تائید پر مبنی ہوکیوں کہ ماضی قریب میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد نے خارجہ پالیسی اورعالمی سطح پر دوٹوک موقف کو ہی زبردست سراہا ہے اور ایسے بیانیہ کو بالکل ناپسند کیا ہے جس سے ملک و قوم کا عالمی سطح پر وقارمجروح ہوتا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button