تازہ ترینتحریکخبریں

پاکستان میں عالمی اسٹیبلشمنٹ پھر متحرک، امریکہ پی ڈی ایم کی مدد کو پہنچ گیا: مبشر لقمان

پاکستان کے سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں ایک طرف اپوزیشن اپنا کھیل کھیل رہی ہے تودوسری طرف عالمی طاقتیں بھی بھرپور متحرک ہو چکی ہیں –

مبشر لقمان کا اپنے یوٹیوب کے آفیشل چینل پر ایک سال قبل جاری ہونے والی ویڈیو میں کہنا ہے کہ ایک طرف پی ڈی ایم پر الزام لگ رہا ہے کہ اسے سعودی عرب سے فنڈنگ مل رہی ہے تو دوسری طرف اس سے امریکی وفد ملاقاتیں کر رہا ہے جو حکومت کے لئے کسی بھی قسم کی ٖغیر متوقع اور غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں متحرک ہو چکی ہے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستا ن میں اقتدار کی تبدیلی کا کھیل کھیلتی رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کو مشرف سے ڈیل کی بھیک دلوانے والا بھی سعودی عرب تھا تو دوسری طرف عمران خان کے دور حکومت میں نواز شریف کو بیماری کے بہانے باہر بھجوانے کا الزام بھی سعودی عرب پر آرہا ہے۔ جبکہ مریم کو باہر آزاد گھومنے کا پروانہ بھی وہیں سے ملنے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

مبشر لقمان کے مطابق یہ امریکہ ہی تھا جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مشرف سےNRO دلوایا تھا، ماضی میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اسلام آباد میں امریکی سفیر سے اقتدار کی بھیک مانگتے نظر آئے۔

سینئیر صحا فی کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتحال میں حمزہ شہباز کی فوری ضمانت اور اس کے بعد انہیں پوری سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینا بھی کسی کھیل اور پریشر کا حصہ محسوس ہو رہا ہے حال ہی میں حمزہ شہباز شریف کی امریکی کونسل جنرل سے لاہور ماڈل ٹاون میں دو گھنٹے ملاقات ہوئی ہے جس کے بعد پریس ریلیز جاری کی گئی کہ Local politics ، Next election اور Pak india relations And Regional situation اور Pakistan US ties Under Biden Adminstration ڈسکس کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ جو چیزیں امریکی کونسل جنرل نے حمزہ سے ڈسکس کی ہیں موجودہ حالات میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے، الیکشن ڈھائی سال بعد ہونے ہیں، لوکل پولیٹکس میں اس وقت امریکہ کا ن لیگ سے ڈسکس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کی مدد سے اگلا حکمران پھر ن لیگ سے ہو گا اور مریم کی بجائے حمزہ سے ملاقات کا مطلب ہے کہ ن لیگ میں بھی اب حکمران نواز شریف نہیں شہباز شریف ہوں گے-

مبشر لقمان کے مطابق حکومت کے لیئے یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورتحال ہونی چاہیے،یہ کسی بھی پس پردہ پیش رفت کا نتیجہ ہو سکتی ہیں کیونکہ پاکستان میں جب کبھی بھی سیاسی تحریکیں چلی ہیں وہ یا تو عالمی طاقتوں کی مدد سے چلی ہیں جیسے مشرف کو جب فارغ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس میں امریکہ بہادر کو سب پتا تھا اور اس کی مدد حاصل تھی۔ یا پھر پاکستان کی طاقتوں کی مدد سے یہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت لانگ مارچ ، جلسے جلوس اور سیاسی عدم استحکام کا ماحول تیار ہے ایسی صورت میں کیا بیرونی طاقتیں اقتدار تبدیل کر کے اپنے مقاصد تو حاصل نہیں کرنے جا رہی، ہمیں اس پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔جبکہ عمران خان بھی پی ڈی ایم پر بیرونی مدد کا الزام لگا چکے ہیں دوسری طرف سعودی عرب دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ اس کا پاکستان پر اتنا اثرو رسوخ ہے کہ اس کے کہنے پر وہ بھارت کے ساتھ بھی ہاتھ ملا سکتا ہے۔ یہ بات بھی تشویش سے خالی نہیں ہے۔

مبشر لقمان کے مطابق ہمیں جو بھی کرنا ہے اپنے مفاد میں کرنا ہے کسی کے اشاروں پر نہیں۔ یہ میرا ہمیشہ سے موقف رہا ہے۔ اور امن کسی بھی ملک سے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جب بات ہمسائے کی ہو تو اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔لیکن وہ امن کس قیمت پر حاصل ہو گا یہ بھی اہم سوال ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایک دم سے نہیں ہو رہا بلکہ اس پر سالوں کی محنت شامل ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ ایک دم سے DG MO اٹھے اور جا کر بھارت کو کہہ دیا کہ اب ہم ایک دوسرے پر گولہ باری نہیں کریں گے، چلو اچھے بچوں کی طرح رہتے ہیں اور بھارت کا DG MO اس کے لیئے تیار بیٹھا تھا اور کام شروع ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر موثر جنگ بندی کی، اس کے بعد سندھ طاس معاہدے پر ڈویلپمنٹ ہوئی، پاکستان میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کو ماضی بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس میں ہر ایک نے Comprehensive Security frame work پر بات کی جس میں بارڈر، ملٹری اور خارجہ تعلقات سے نکل کر ایک انسان کی سیکیورٹی شامل ہے۔ جس میںEnvironmentWater Food securityسمیت ہر وہ چیز آتی ہے جس سے اس ملک کا شہری تحفظ کا احساس کرتا ہے۔

مبشر لقمان نے کہا کہ اور اس کے بعد بھارت میں مودی جیسے شخص نے نہ صرف عمران خان کے لیئے خیر سگالی کی ٹویٹ کی بلکہ یوم پاکستان کے موقع پر ایک خط بھی عمران خان کے نام پر لکھا گیا۔جس میں کہا گیا کہ پاکستان کے قومی دن کے موقع پر وہ پاکستانی عوام کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔

مودی نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اس مشکل وقت میں وہ اُنھیں اور پاکستانی عوام کے کووڈ 19 کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں ایک پڑوسی ملک کے طور پر انڈیا پاکستان کے عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے ایسا ممکن بنانے کے لیےدہشتگردی اور دشمنی سے خالی اور اعتماد سے بھرپور ماحول کی ضرورت ہے۔

مبشر لقمان کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کی لوکل سیاست میں مداخلت کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ شائد پی ڈی ایم کو اپنا وجود رکھنا مشکل ہو جائے جبکہ پی ڈی ایم اپوزیشن کے لیئے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیئے ناگزیر ہے لیکن یہ بات مریم کو کون سمجھائے۔

انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر مایوسی کا اظہارکیا ہے اور صف زرداری اور نوازشریف کو پیغام دیا ہے کہ بچوں کو سمجھائیں وہ بچگانہ سیاست نہ کریں یہ طے ہوا تھا کہ چار اپریل سے قبل کوئی کسی کے خلاف متنازعہ بیان نہیں دے گا، بلاول اور مریم سمیت دیگر رہنماؤں کے حالیہ بیانات پر بہت مایوسی ہوئی ہے، جو فیصلے پی ڈی ایم اجلاس میں ہوئے تھے ان پر عمل ہونا چاہیے، استعفوں اور لانگ مارچ پر پی پی نے خود وقت مانگا اس لیے سب انتظار کریں۔

انہوں نے کہا کہ لیکن اس سب کے باوجود ہر طرف یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا پی ڈی ایم اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی پیپلز پارٹی کو یہ گلہ شکوہ ہے کہ مولانا اور مریم پہلے ہی گڈ مڈ کر لیتے ہیں اور پھر اپنے فیصلے ہم پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اجتماعی استعفوں کے معاملے میں بھی پیپلز پارٹی کا شکوہ ہے کہ وہ 26 مارچ کے لانگ مارچ کی تیاری کیے ہوئے تھے کہ اچانک دس روز پہلے استعفوں کو لانگ مارچ کے ساتھ نتھی کر دیا گیا، حالانکہ پہلے سے ایسی کوئی بات طے نہیں تھی۔

مبشر لقمان کیا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ بُرے سے بُرے حالات میں بھی پارلیمانی سیاست سے دستبرداری سیاسی طور پر نقصان دیتی ہے وہ تو 1985 میں آج سے 36 سال پہلے لگنے والا نقصان بھولنے کو تیار نہیں جب انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی غلطی کی یہ بائیکاٹ ہی تھا جس نے نواز شریف کو اپنے قدم جمانے کا موقع دیا اور اس کے بعد سے دوبارہ پیپلز پارٹی پنجاب میں وہ مقام حاصل نہ کر پائیاس کے بعد سے پیپلز پارٹی نے استعفوں کی دھمکیاں تو دی ہیں مگر کبھی اس پر عمل نہیں کیا اب بھی ان کا استعفے دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔

سینئیر صحافی نے بتایا کہ اس وقت اپوزیشن چار اپریل کا انتظار تو کر رہی ہے لیکن انہیں ا سکے بعد مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا مسلم لیگ ن مولانا کو لانگ مارچ عید کے بعد رکھنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ جس کے بعد گرمیاں شروع ہو جائیں گی دوسرا پی ڈی ایم کو یہ خطرہ بھی ہے کہ وہ عوام میں مطلویہ پریشر بھی قائم رکھنے میں ناکام ہو جائے گی، اپوزیشن کے قدم اکھڑ چکے ہیں اور اب یہ صرف میاں نواز شریف کی ملک دشمن تقریروں سے نہیں جمیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جبکہ یوسف رضا گیلانی کی عدالت سے درخواست خارج ہونے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیپلز پارٹی سینٹ میں ضزب اختلاف کے لیئے اپنا امیدوار لے آئے گی جس پی ڈی ایم کے تابوت میں آکری کیل ثابت ہو سکتا ہےجبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں حکمت عملی پر بھی شدید اختلاف ہے، ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دار تقریریں کرنا چاہتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی ن لیگ کے پیچے لگ کر اس تصادم کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔

مبشر لقمان کے مطابق ایسی صورت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا مستقبل تاریک ہے لیکن کسی بھی قسم کی بیرونی غیبی طاقت اس تحریک میں جان ڈال سکتی ہے۔ جو یقینی تور پر اس ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button