Column

سیاست میں غیر سیاسی چالیں ….. علی حسن

 علی حسن
اگر اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں عمران خان کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں تو تحریک پیش کرنے والوں کو خوشیاں منانے دیں اور خود شکر ادا کریں کہ انہیں اس بھان متی کے کنبے کے ساتھ حکومت کرنے سے نجات ملی۔ اس ملک کی سیاست میں سے جب تک تمام کھلاڑی وفا داریاں تبدیل کرنے والوں کا صفایا نہیں کرتے اور وفاداری تبدیل کرنے کے عمل کے خلاف قابل عمل اور گرفت قانون سازی نہیں کرتے تو یہاں بس اسی طرح کی ڈھیلی ڈھالی غیر اصولی جمہوریت ہی کام کرے گی ۔ ایسی جمہوریت سے مخصوص افراد کو تو فائدہ پہنچتا ہے لیکن عام آدمی کو صفر فائدہ ہوتا ہے۔ منتخب ہو کر اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو بھی اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے ۔ کہتے ہیں کہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے۔ یہ کیسا ضمیر ہے جو صبح کسی کے لیے جاگتا ہے اور رات کو کسی اور کے لیے سوتا ہے۔ یہ سویا ہوا وہ ضمیر ہے جو مردہ ضمیروں کو سویا ہوا ہی رکھے گا۔ ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی بات سیاست دانوں کاسیاسی حربہ ہے جس میں ضمیر سویا ہوا ہی رہتا ہے۔
سیاست دان ایسی حکومت ہی کیوں بناتے ہیں جس میں وفاداریاں تبدیل کرنے والے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ وفاداریاں تبدیل کرنے کے سلسلے طویل عرصے سے جاری ہیں اور اس نے سیاست کو پراگندہ کرکے احساس ذمہ داری کو ضائع کر دیا ہے۔ ندامت پیدا کر دی ہے لیکن ندامت کوئی دیوار تو نہیں ہے کہ کسی پر گر جائے گی بلکہ یہ احساس ہی ہے جو آپ کو ندامت میں مبتلا کردیتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں چھپتے چھپاتے ہوئے کہیں جا کر پناہ لینا کون سی جمہوریت کہلائے گی اور اگر یہ پناہ پیسے لینے کے لیے حاصل کی گئی ہے تو خدا کی پناہ۔ یہاں عمران خان کی حمایت میں بات کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی بقا کے لیے ذمہ داری کا احساس دلاناہے۔ حکومت کے اتحادی ہوں یا خود تحریک انصاف کے اراکین، انہیں اگر عمران خان یا حکومت کی کارکردگی سے شکایات تھیں تو چوری چھپے کہیں پناہ لینے کی بجائے کھل کر سر عام عمران خان کو کہنا چاہیے تھا کہ وہ اب ان کے ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں جانے دینا نہیں چاہتے ہیں تو ہماری نشست سے ہمارا استعفیٰ یہ رکھا ہوا ہے۔ ہم آئندہ انتخابات کا انتظار کریں گے۔ یہ رویہ باعث افتخار ہوتا، باعث توقیر کہلاتا اور حقیقت میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کا سبب بنتا ۔
تحریک انصاف کے اراکین کو پیپلز پارٹی نے اسلام آباد میں سندھ ہاﺅس میں پناہ دی اور راجہ ریاض تو تعداد کی تصحیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تحریک کی حمایت کرنے کے بعد مستعفی ہو کر دوبارہ انتخاب میں حصہ لیں گے۔ مستعفی ہو کر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ اپنی جگہ درست ہے لیکن انہیں یہ فیصلہ بہت پہلے کرنا چاہیے تھا تاکہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا بھرم بھی برقرار رہتا۔ سندھ ہاﺅس کو مخالف سیاسی جماعت کے منحرفین کے لیے پناہ گاہ بنانا بھی غیر سیاسی عمل ہے۔ اگر اسی طرح سرکاری سرپرستی میں پناہ گاہیں بنتی رہیں تو اس کے نتائج کسی بھی طرح جمہوریت کے حق میں نہیں نکلیں گے۔ وفاقی وزیر تو الزام لگاتے ہیں کہ اراکین کو پیسے دیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ ” افسوس کی بات ہے کہ ایک خاتون ایم این اے کو 7 کروڑ روپے دیے گئے، سندھ میں عوا م کے پاس پینے کا پانی نہیں اور جہازوں میں پیسے بھر کر لائے گئے، سندھ ہاو ¿س نیا چھانگا مانگا ہے“۔ اس طرح کی غیر اصولی غیر اخلاقی سیاست کی حمایت کیوں کر کی جاسکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک فہرست گردش میں ہے جس میں اراکین کے ناموں کے ساتھ وہ رقم لکھی گئی ہے جو (مبینہ طور پر ) انہیں دی گئی ہے۔ اس ملک کا یہ المیہ ہے کہ سیاست دانوں کے علاوہ ذرائع ابلاغ بھی تماشائی بن کر تالیاں بجاتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ” منتخب اراکین کی خریداری خچر اور گھوڑوں کی طرح کی جارہی ہے، جو کہتا ہے ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے، وہ بے شرم استعفیٰ دیں، آپ عمران کے نام پر ووٹ لے کر آئے ہیں“۔اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنے سندھ ہاو ¿س میں سندھ پولیس کے سپیشل سکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) کے لگ بھگ 228 پولیس کمانڈوز تعینات ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق ان میں سے بیشتر کمانڈوز کی تعیناتی کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ سندھ کی اہم شخصیات کی اسلام آباد میں موجودگی کی وجہ سے ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کے اسلام آباد میں ہاﺅسز موجود ہیں جہاں صوبوں سے اسلام آباد گئے ہوئے سرکاری عہدیداران قیام کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے منحرف ارکان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے ۔ کیا بہت دیر نہیں ہو گئی؟۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آئین میں واضح لکھا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف جانے پر قانونی کارروائی کے تحت ڈی نوٹیفائی کیاجاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن نے وزیراعظم اور حکومتی ارکان کی جانب سے پارٹی پالیسی کے خلاف جانے (فلور کراسنگ) والے ارکان کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر تنقید کے حوالے سے اپنا موقف دے دیا۔ کمیشن کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنارہے ہیں کہ کمیشن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور ارکان پارلیمنٹ کی مبینہ فلور کراسنگ کے سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہا۔ اس کا وزیر اعظم کے انتخاب اور عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں، یہ ذمہ داری سپیکر قومی اسمبلی بطور پریذائیڈنگ آفیسر سر انجام دیتا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ کسی رکن پارلیمنٹ کے انحراف پر الیکشن کمیشن کا کردار پارٹی سربراہ اور سپیکر کی طرف سے ڈکلیئریشن موصول ہونے کے بعد شروع ہوگا، پارٹی سربراہ متعلقہ ممبر پارلیمنٹ کے انحراف سے متعلق ڈکلیئریشن جاری کرے گا، جو سپیکر قومی اسمبلی اور چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا جائے گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پارٹی سربراہ متعلقہ ممبرکو وضاحت کا موقع دے گا، اس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی 2 دن کے اندر انحراف سے متعلق ڈکلیئریشن چیف الیکشن کمشنر کو بھجوائے گا، جسے کمیشن کے سامنے پیش کرکے 30 دن کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔
سیاست دانوں کی بازی گری کو دیکھتے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس پورے کھیل میں انہیں تو کچھ ملنا ہی نہیں ہے، کیوں نہ وہ بھی جو کچھ ہے، جیسا بھی ہے، میں سے اپنا حصہ جتنا بھی ہاتھ آسکے ، حاصل کر لیں۔ جن کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ہے، ان ہی کی تعداد بہت بڑی ہے اور لوگ کیوں نہ متنفر ہوں اور ملکی سیاست سے قطعی طور پر لا تعلق ہو جائیں حالانکہ ان کی یہ لاتعلقی قومی بقا کے لیے خطرے کا نشان ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ” میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، آخری گیند تک لڑوں گا “۔ انہیں چاہیے کہ جو بھی اراکین ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی مدد سے ہی مضبوط ٹیم کھڑی کریں اور اپنا ہدف ( کرپشن کے ذریعے قومی خزانے سے لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف کارروائی) حاصل کرنے کے لیے اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہیں۔ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button