
سائنسدانوں نے میٹا مٹیریئلز پر مبنی اینٹینا بنایا ہے جو ہر وقت موجود ریڈیائی امواج، وائی فائی، ریڈیو نشریاتی سگنلز اور موبائل فون ٹاور کی اشعاع سے بجلی بنا سکتا ہے۔
برقناطیسی ٟ الیکٹرومیگنیٹکٞ اشعاع کی صورت میں توانائی سے بھری یہ لہریں ہمارے اطراف موجود رہتی ہیں ۔ اب ایک نئی ایجاد کی بدولت بہت جلد ہم کم خرچ سینسر، ایل ای ڈی اور دیگر آلات کو تو ہوا کی مدد سے چلانے کے قابل ہوجائیں گے۔
یونیورسٹی آف سدرن فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے میں تحقیقی ٹیم کے سربراہ جیانگ فینگ زو اور ان کے ساتھیوں نے بجلی جمع کرنے والا یہ نظام بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ فی الحال کم خرچ آلات کو چلایا جاسکتا ہے اس لیے عمارت میں درجہ حرارت، اس کی ساخت یا جنگلات میں نمی ریکارڈ کرنے والے ماحولیاتی سینسر کی توانائی میں یہ بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان جگہوں پر جاکر بار بار بیٹری بدلنا محال ہوتا ہے۔
اس اہم اختراع کی تفصیل آپٹیکل مٹیریئل ایکسپریس میں شائع ہوئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں اس نے کم شدت کی ریڈیائی لہروں سے 100مائیکروواٹ بجلی بنائی جو سادہ آلات چلاسکتی ہے۔ اس کے بعد تجربہ گاہ میں اس کی آزمائش بھی کی گئی ہے۔ اسے ایک ایسے چیمبر میں رکھا گیا ہے جہاں باہر کی ریڈیائی امواج بلاک کی گئی تھیں۔
جبکہ صرف ایک ہی مخرج سے ریڈیو فریکوئنسی بھیجی گئیں۔ ناقدین کے مطابق اب بھی اینٹینا بہت بڑا ہے جسے چھوٹا کرنے پر غور ہورہا ہے۔ تاہم یہ وائی فائی اور بلیو ٹوتھ سگنل سے بھی کچھ نہ کچھ توانائی بناہی لیتا ہے۔
تاہم پروفیسر جیانگ کا خیال ہے کہ اب اس ٹیکنالوجی کے ثمرآور ہونے کا وقت آگیا ہے کیونکہ ہمارے پاس خاص مادے اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب ہم ریڈیائی امواج کی صورت میں ضائع ہونے والی توانائی کو دوبارہ بجلی میں ڈھال سکیں گے۔ پہلا نمونہ یا پروٹوٹائپ 16سینٹی میٹر لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے۔
یہ 0.7سے 2گیگاہرٹز کی ریڈیائی امواج کے درمیان کسی بھی فری کوئنسی سے بجلی بناسکتا ہے۔ اگر اسے سیل فون ٹاور سے 100میٹر دور رکھا جائے تو 100مائیکروواٹ بجلی بناسکتا ہے۔