تازہ ترینخبریںخواتین

عورت مارچ 2022: شرکاء کے نعروں کی جگہ نئے’اشتعال انگیز پوسٹرز

عورت مارچ کے شرکاء خواتین کے خلاف تشدد اور ناانصافی پر معاشرے کو حرکت میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے حکمت عملی کا ایک پہلو تخلیقی پوسٹرز کا استعمال ہے، جسے کچھ لوگ ‘اشتعال انگیزی ‘ کے طور پردیکھتے ہیں حالانکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پوسٹرز نے معاشرے اور ریاست کے لیے حقیقی سوالات کھڑے کیے ہیں۔

کچھ منتظمین نے 2020 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب آپ سماجی اصولوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جارحانہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

رواں سال عورت مارچ کے شرکاء نے چند نئے پوسٹرز متعارف کرائے ہیں جو دووجوہات کی بنا پر”اشتعال انگیز” تھے، انہوں نے پدرانہ نظام کو چیلنج کیا اور ان پالیسیوں پر سوال اٹھایا جوخاص طور پر روزمرہ کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں۔

مارچ میں شریک ایک عورت نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا،’کیا نڈرعورتوں کا یہ چلتا لاوا آپ کو ڈرا رہا ہے؟’، اپنے بیٹوں کو سکھائیں کہ وہ عصمت دری نہ کریں ورنہ ہم اپنی بیٹیوں کو مارنے کا طریقہ سکھائیں گے، اسی فریم میں یہی پیغام ایک مرد کی جانب سے بھی دیا جارہا ہے۔

نڈرخواتین کے حوالے سے یہ سوال عورت مارچ مخالف سوشل میڈیا مہم کاحوالہ ہے جو گزشتہ سال چلائی گئی تھی۔ ایک اورپوسٹر اسی مسئلے سے متعلق یہ یاد دلا رہا ہے کہ مارچ کرنے والوں کے بارے میں کس طرح سے من گھڑت کہانیاں پیش کی گئیں۔

پوسٹرپرپیغام درج تھا کہ ،’وائرل ہونے کے خواہمشند ان یوٹیوبرزنے بے بنیاد اورجھوٹے دعوؤں کے ذریعے مارچ کرنے والوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں، یہ ری ٹویٹس چاہتے ہیں، آئیے انہیں وائرل کریں’۔

جنگ،جبری گمشدگی اوردہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی ارم دیہی سندھ سے کراچی آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان خواتین کے لیے یہاں موجود ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں، بھائیوں اوربیٹوں کو حکام کے سامنے کھو دیا، ان کی زندگی ایک نہ ختم ہونے والی نفرت میں سکڑکررہ گئی ہے۔

اسی طرح ایک اور خاتون نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پردرج تھا، ‘میں ہر بلوچ عورت کے لیے مارچ کرتی ہوں ‘۔

ایک پلے کارڈ کا کہناتھا کہ، ‘ہرکامیاب عورت کے پیچھے وہ خود ہوتی ہے’۔

ایک پلے کارڈ رواں سال کے آغازمیں منی بجٹ یا سپلیمنٹری فنانس بل کا حوالہ دے رہا تھا جس پردرج تھا، ‘پنک ٹیکس نا منظور، میری ماہواری عیش وعشرت نہیں ہے’۔

گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان کے ایک انٹرویوکا حوالہ دیتے ہوئے ان کے متنازع بیان کو بھی نشانے پررکھاگیا جس میں وزیراعظم کا کہناتھا کہ، ‘اگرکوئی عورت بہت کم کپڑے پہنتی ہے تو اس کا اثر ردوں پر پڑے گا جب تک کہ وہ روبوٹ نہ ہوں’۔ ایک لڑکے نے پوسٹرمیں عمران خان نے سوال کیا، ‘”جناب وزیر اعظم، میں جنسی شکاری نہیں ہوں۔ کیا میں روبوٹ ہوں؟’۔

اسی نوجوان کے پاس کھڑی خاتون نے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں ماہواری ایک ممنوع موضوع کیوں ہے؟۔

ایک پوسٹرپردرج تھا ، ‘عزت بھی لیں گے،اُجرت بھی لیں گے، نہیں دو گے تو چھین کرلیں گے’۔

ایک نوجوان نے واضح پیغام دیا، ‘میں اپنی جنس کی تاریخ کے لیے معذرت خواہ ہوں’۔

پدرانہ نظام کے’عورت ہی عورت کی دشمن ہے’ جیسےمقبول تصور کو’عورت ہی عورت کی محافظ ہے’ سے چیلنج کیا گیا۔

ایک خاتون کے اٹھائے گئے پوسٹرپردرج تھا،’ جتنی سڑک تمہاری، اتنی سڑک ہماری’۔

ایک خاتون نے انصاف کا تصورلیے پوسٹراٹھایا، میرا فیمنسٹ ایشو شیعوں کا قتل ہے’۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button